روایت ہے کہ عربی میں شاعری کی ابتدا مرثیے سے ہوئی۔ چونکہ شاعری جذبوں کے اظہار سے منسلک ہے اور جذبوں میں سب سے قویٰ جذبہ درد و غم کا ہے۔ چنانچہ اس کا اظہار بھی دیگر جذبوں سے زیادہ طاقتور اور جوش آور ہوتا ہے۔ اُردو میں مرثیہ فارسی غزل کے برعکس عربی شاعری سے متعارف ہوا۔ عربی و فارسی میں تو مرثیہ کسی بھی شخصیت کے لیے یا کسی تہذیب بلکہ شہروں کے لیے بھی لکھا جاتا رہا، جیسا کہ اقبال نے سسلی، غرناطہ اور ہندوستان پر ایسی نظمیں لکھیں جو مضمون کے اعتبار سے مرثیے میں شمار کی جا سکتی ہیں۔ مگر اُردو مرثیہ زیادہ تر ماقبل و مابعد کربلا، اہلِ بیت پر ہونے والے مظالم کے بڑے دردناک ذکر سے عبارت ہے۔ اُردو مرثیہ نگاری میں انیس کے بعد دبیر کا نام آتا ہے۔ پیشِ نظر کتاب میرزا دبیر کے بیس مرثیوں پر مشتمل ہے۔ ان مرثیوں کا انتخاب ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے کیا ہے۔ میرزا دبیر نے (انیس کی وفات پر) میر انیس کی عظمت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا تھا:
آسماں بے ماہِ کامل، سدرہ بے روح الامین
طورِ سینا بے کلیم اللہ و منبر بے انیس
یہ خراجِ تحسین میرزا دبیر کی فنی عظمت اور عالی ظرفی کا بھی مظہر ہے۔ میر انیس نے بھی کئی بار میرزا دبیر کی فنی عظمت کو بیان کیا ہے۔ انیس کی طرح میرزا دبیر کے مرثیوں کے مصرعے بھی روزمرہ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ مثلاً کس شیر کی آمد ہے کہ رَن کانپ رہا ہے۔ جس مرثیے کا عنوان ہے وہ بھی اس انتخاب میں شامل ہے۔ جس مرثیے کا عنوان ہے وہ بھی اس انتخاب میں شامل ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مذکورہ انتخاب دبیر کے طویل مرثیوں کا بہترین انتخاب ہے۔ چند مرثیے 120، 134، 137 بندوں پر مشتمل ہیں۔ مذکورہ انتخاب میں ایسے مرثیے شامل ہیں جو زبان اور بیان اور مضمون کے اعتبار سے خاص اہمیت اور دلچسپی کے حامل ہیں۔ کتاب کے شرو ع میں ڈاکٹر ظہیر فتح پوری کا مقدمہ بھی شاملِ کتاب ہے جس میں دبیر کے عہد، ماحول اور کلام پر بالصراحت تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے۔