میر امن دہلوی کا نام سنتے ہی ذہن فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور مشہور کلاسیکی داستان ’’باغ و بہار‘‘ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ دو سو برس گزرنے کے باوجود اُردو کی مختصر داستانوں میں ’’باغ و بہار‘‘ کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ آج تک مختلف مطابع کے زیرِ اہتمام اس کے بیسیوں ایڈیشن شائع ہوئے۔ رشید حسن خاں نے کتاب کا انتساب اُردو میں تدوین کے معلم اوّل مولانا امتیاز علی خاں عرشی کے نام کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات نقل در نقل کے باعث الفاظ کا عکس مدھم اور پھر بالکل ہی معدوم ہو جاتا ہے مگر اس امکان اور عذر کو سامنے رکھتے ہوئے کسی نقاد کو اس کا تنقیدی ایڈیشن تیار کرنے کا خیال نہیں آیا۔ آج بھی ’’باغ و بہار‘‘ کے متعدد ایڈیشن بازار میں دستیاب ہیں مگر موجودہ نسخے میں باغ و بہار پر رشید حسن خاں کا تحریر کردہ بسیط مقدمہ اس کتاب کی انفرادیت کا بڑا ثبوت ہے۔ چنانچہ یہ ’’باغ و بہار‘‘ کا تنقیدی ایڈیشن ہے جس پر ممتاز محقق رشید حسن خاں نے زندگی کے کم و بیش تئیس سال صرف کیے۔ اس دوران باغ و بہار کی خطّی اور مطبوعہ روایتوں کے ساتھ ساتھ ’’باغ و بہار‘‘ کے دیگر مرتبہ ایڈیشن بھی ان کے پیشِ نظر رہے۔
اس کتاب کا حرفِ آغاز خلیق انجم نے تحریر کیا ہے جس میں انھوں نے باغ و بہار کے مختلف متون اور ایڈیشنوں سے لے کر زیرِ نظر ایڈیشن تک کے دوران کے پیش آمدہ مراحل کا مفصل ذکر کیا ہے۔ مقدمے میں رشید حسن خاں نے باغ و بہار کی دیگر اشاعتوں اور ثقہ اساتذہ کے مباحث اور اقوال کا بھی عمیق نظری سے جائزہ لینے کے علاوہ الفاظ، اعراب، علامات اور اوقاف اور محاورات کے برمحل استعمال کے حوالے سے صحتِ متن کا جائزہ لیا ہے۔ باغ و بہار کی اُردو بہت شستہ ہے مگر اس دور کے اُردو املا اور آج کے اُردو املا میں بہت فرق ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ اس داستان کا انھی خطوط پر جائزہ لیا جائے تاکہ اس دور کی لکھی ہوئی عبارت کی لسانی اعتبار سے تفہیم آسان ہو سکے اور اس کے ساتھ ساتھ اُردو نثر اور املا میں تبدیلیوں کی پیش رفت کا بھی اندازہ ہو سکے۔ مقدمے کے بعد ’’باغ و بہار‘‘ کے طبع اوّل کے سرورق کا عکس بھی شاملِ کتاب ہے۔ میر امن کا لکھا ہوا دیباچہ بھی شاملِ کتاب ہے جس کے بعد ’’باغ و بہار‘‘ کا آغاز ہوتا ہے۔ متن کی تشریحات، اختلافات اور توضیحات کا یہ سلسلہ ساڑھے تین سو صفحات پر محیط ہے۔ آخر میں ضمیمے کے طور پر میر امن کی تحریر کا عکس بھی شاملِ کتاب ہے۔