مکتوبات کا یہ مجموعہ سرسیّد کی نجی زندگی کا بہت عمدہ اور بالکل صحیح خاکہ پیش کرتا ہے اور ان خطوط سے ان کے ذاتی اخلاقی و عادات کی بہت معقول واقفیت ہو جاتی ہے۔ ان کی تعلیمی سرگرمیوں، ان کی اصلاحی کوششوں اور مذہبی عقائد کے متعلق ان کے ذاتی خیالات کی بہترین عکاسی ان خطوط سے ہوتی ہے۔ ہندوستان کے پچاس برس کے علمی، مذہبی، معاشرتی اور سیاسی حالات و واقعات کی عکاسی بھی ان خطوط میں عیاں ہے۔ قومی بھلائی اور مسلمانوں کی دنیوی ترقی و بہبود کے جو جو منصوبے، سرسیّد اس دوران میں زیرِ عمل لائے یا جو جو تجویزیں ان کے ذہن میں تھیں، جن کو وہ عملی جامہ نہ پہنا سکے، ان کی کیفیت بھی ان خطوط سے معلوم ہوتی ہے۔ جس محبت اور شفقت کے ساتھ وہ لوگوں سے برتائو کرتے تھے، جس خندہ پیشانی کے ساتھ وہ آنے جانے والوں سے ملتے تھے، جس اخلاق و مروت کے ساتھ وہ ہر آئے گئے کا خیرمقدم کیا کرتے تھے، بزرگوں سے جس ادب و احترام کے ساتھ، دوستوں سے جس خلوص و یک رنگی کے ساتھ، چھوٹوں سے جس شفقت و اُلفت کے ساتھ، غیروں سے جس رواداری اور حسنِ سلوک کے ساتھ، اپنوں سے جس یگانگت اور محبت کے ساتھ، مخالفوں سے جس طنز و مزاح کے ساتھ، دشمنوں سے جس سختی و ترش روئی کے ساتھ اور یار دوستوں سے جس بے تکلفی کے ساتھ وہ پیش آتے تھے، اس کی بڑی صحیح، بہت مکمل اور نہایت درست تصویر ان اوراق میں نظر آتی ہے۔
سرسیّد کے اخلاق و عادات، ان کی سیرت و کردار اور ان کے عقائد و خیالات کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں بھی ان خطوط کے مطالعے سے دور ہو جاتی ہیں۔ سرسیّد ان خطوط میں بالکل ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے فی الحقیقت وہ تھے کیونکہ تصنیف و تالیف میں تو انسان تصنع اور بناوٹ سے کام لے سکتا ہے مگر ذاتی خطوط میں ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ ان کے چھپنے کا وہم بھی نہیں ہوتا۔ اور دل کی بات صاف صاف کر دی جاتی ہے۔ اسی لیے کسی کے بھی اصلی خیالات و افکار معلوم کرنے کے لیے خطوط سے زیادہ مستند معلومات کہیں سے دریافت نہیں ہو سکتیں۔