یہ کتاب مولانا غلام رسول مہر کی حیات اور کارناموں کا تذکرہ ہے جسے ڈاکٹر شفیق احمد نے لکھا ہے۔ مولانا غلام رسول مہر کی ادبی شخصیت بہت ہی پہلودار تھی۔ وہ بیک وقت صحافی، سوانح نگار، مورخ، محقق، شارح، مترجم، شاعر اور سفرنامہ نگار تھے۔ ان کی تحریروں میں میرامن کی سادگی بھی ہے، غالب کا طنز و مزاح بھی، سرسیّد اور حالی کی استدلالیت اور منطقیت بھی اور شبلی کا پُرجوش اسلوب بھی، مولانا محمد حسین آزاد کی مرقع نگاری بھی اور مولانا ابوالکلام آزاد کا بات کو پھیلا کر پیش کرنے کا انداز اور حسبِ موقع مختلف زبانوں کے اشعار کا استعمال بھی۔ مولانا مہر نے کسی ایک ادیب کے انداز کی تقلید اور پیروی نہیں کی بلکہ ہر ادیب کے نمایاں ترین محاسن سے خوشہ چینی کر کے اپنے لیے ایسا اسلوب متعین کیا جو اس گلدستے کی مثال پیش کرتا ہے جس میں مختلف رنگوں کے پھول چنے گئے ہوں اور یہی مولانا مہر کے اسلوبِ تحریر کی انفرادیت ہے۔
مولانا کے اسلوبِ نگارش میں مختلف عناصر کے اجتماع کی ایک وجہ خود ان کی افتادِ طبع میں مضمر ہے۔ انھوں نے اپنی نصف صدی پر محیط ادبی زندگی میں خود کو کسی ایک صنفِ ادب تک محدود نہیں رکھا اور نہ کسی ایک میدان پر قناعت کی، بلکہ وہ مختلف جہتوں میں کام کرتے رہے۔ مولانا مہر ادب برائے زندگی کے قائل تھے اور وہ اپنی ہر تحریر کو قوم و ملت کی بیداری کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ پھر ان کا زمانہ بھی ایسا تھا جب قوم و ملت دوہری غلامیوں کا شکار تھی۔ ان حالات میں دیگر بہت سے ادیبوں اور شاعروں کی طرح مولانا مہر ادیب کے علاوہ داعی کی حیثیت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ مولانا مہر کی حیات اور اُن کے علمی و ادبی کارناموں پر مشتمل ڈاکٹر شفیق احمد کا یہ مقالہ اہلِ علم کے حلقوں میں یقیناً پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جائے گا۔