قصہ تاج الملوک اور گل بکاولی سے ذہن پنڈت دیاشنکر نسیم لکھنوی کی ’’گلزارِ نسیم‘‘ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، لیکن اس کے پس منظر میں نہال چند لاہوری کی نثری تالیف ’’مذہبِ عشق‘‘ ہے۔ اس سے بھی قبل یہ قصہ اصلاً فارسی نثر میں عزت اللہ بنگالی نے 1124ھ میں لکھا۔ لیکن مزید تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قصہ عزت اللہ بنگالی کی فارسی نثر سے پہلے بھی اُردو یا دکنی زبان میں محفوظ تھا۔ لیکن نہال چند لاہوری نے مذہبِ عشق کے دیباچے میں شیخ عزت اللہ بنگالی کے فارسی قصے کو اپنی تالیف کی اساس قرار دیا ہے۔ نہال چند لاہوری نے ’’مذہبِ عشق‘‘ کی تکمیل 1217ھ مطابق 1803 میں کی تھی اور 1804ء میں اس کا پہل ایڈیشن فورٹ ولیم کالج سے شائع ہوا۔ اگرچہ اس کی تالیف کو ڈیڑھ صدی گزر چکی ہے لیکن اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ اس دوران یہ متعدد مطبعوں سے متعدد بار نہ صرف یہ کہ شائع ہوتا رہا بلکہ مختلف زبانوں میں اس کے تراجم کیے گئے۔
یہ کتاب چھبیس ابواب پر مشتمل ہے۔ ہر باب میں ایک داستان بیان ہوتی ہے، اس لیے ہر باب کو داستان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں طرزِ بیان سادہ اور سلیس نہیں بلکہ فارسی تراکیب سے فارسیت چھائی ہوئی ہے، تشبیہات و استعارات سے زیادہ کام لیا گیا ہے جبکہ محاورات و روزمرہ کا استعمال بہت کم ہے۔ گھریلو الفاظ عورتوں کی زبان سے نگینے کی طرح جابجا جڑ دیئے گئے ہیں۔ ’’مذہبِ عشق‘‘ میں ایک ہی طرح کے چند بیانات بھی ہر داستان میں آتےہیں۔ نہال چند کا یہ ترجمہ بہت صاف اور خوب ہے، اگر ترجمے کا خیال دل میں نہ ہو تو عبارت پڑھنے سے ہرگز یہ تصور نہیں ہوتا کہ یہ کسی کتاب کا ترجمہ ہے بلکہ ذہن اس طرف منتقل ہی نہیں ہوتا۔ الغرض، ’’مذہبِ عشق‘‘ اُردو ادبیاتِ عالیہ کی اہم کتابوں میں سے ایک ہے۔