اُردو کے مکاتیبی ادب میں ’’موعظۂ حسنہ‘‘ کو دو گونہ امتیاز حاصل ہے۔ پہلا امتیاز یہ کہ خطوطِ غالب کے بعد جدید طرز کے مکتوبات کا یہی مجموعہ سب سے پہلے مرتب ہو کر شائع ہوا۔ آخری چند خطوط کے سوا اس مجموعے کے تمام خطوط 1876ء اور 1879ء کے درمیان لکھے گئے اور 1887ء میں قومی پریس لکھنؤ سے طبع ہوئے۔ نہ صرف ترتیبِ طباعت کے لحاظ سے یہ خطوط عودِ ہندی (1868ء) اور اُردوے معلی (1869ء) سے سب سے زیادہ قریب العہد ہیں، بلکہ زمانۂ تصنیف کے اعتبار سے بھی، سرسیّد کے چند خطوط کے سوا، انہی مکتوبات کو تقدم کا شرف حاصل ہے۔ ’’موعظۂ حسنہ‘‘ کا دوسرا امتیاز اس کے نام سے ظاہر ہے کہ اس مجموعے کے تمام خطوط ایک شفیق باپ نے اپنے بیٹے کے نام تعلیم و تربیت کی غرض سے لکھے ہیں۔ غالباً اس طرز کے خطوط کا کوئی مجموعہ اُردو میں اب تک مرتب نہیں ہوا۔ مکتوبات کے مجموعوں میں ایسے مجموعے معدودے چند ہیں جو تمام تر خانگی خطوط پر مشتمل ہوں۔
عموماً اعزہ کے خطوط نجی اور خانگی ہونے کے باعث قابلِ اشاعت نہیں ہوتے لیکن ’’موعظۂ حسنہ‘‘ کا معاملہ اس سے جدا ہے۔ اس کے موضوع و مطالب میں یکسانیت ہے۔ بہ اعتبارِ زمانہ جملہ خطوط صرف تین چار سال کے عرصے تک محدود ہیں، تاہم اس مجموعے کو اُردو کے مکاتیبی ادب میں ایک اہم مقام حاصل ہے، کیونکہ لکھنے والا ایک شفیق باپ کے ساتھ ساتھ تجربہ کار معلم بھی ہے۔ اگرچہ ان خطوط میں کہیں کہیں خانگی معاملات کا ذکر ہے، لیکن بیشتر خطوط کردار کی تعمیر و اصلاح اور تعلیم و تربیت کے مسائل سے متعلق ہیں۔ ان کے ذریعے ہر پڑھنے والا خواہ وہ بیٹا ہو یا شاگرد مکتوب نگار کے علم و تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ ’’موعظۂ حسنہ‘‘ کا مصنف ایک صاحبِ طرز انشاپرداز بھی ہے اور اس میں اس کے اسلوب کے تمام انفرادی نقوش یہاں موجود ہیں۔ پھر ان خطوط سے مصنف کی اپنی سیرت اور زندگی کے مختلف گوشوں پر بھی روشنی پڑتی ہے جس کے لیے ان خطوط کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔