دکنی اُردو کی ادبی تاریخ پر نصیر الدین ہاشمی کی پہلی تالیف ’’دکن میں اُردو‘‘ کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بعد میں اس طرز پر لکھی جانے والی کتب کے لیے تحقیق و تالیف کا ایک نمونہ اور بنیاد بن گئی۔ اُنھوں نے تاریخ و سوانح اور دیگر ادبی و تحقیقی موضوعات پر اہم کتب اور سیکڑوں تحقیقی مقالات قلمبند کیے۔ ہر زبان کے ادب میں، خواہ شاعری ہو یا ناول نگاری، افسانہ نویسی ہو یا ڈراما، ان پر ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ حقیقت پرداز ادب اپنے زمانے کا عکاس ہوتا ہے۔ جنوبی ہندوستان پر مسلمانوں نے چھ سو سال حکومت کی اور اس کے مختلف حصوں میں جہاں بانی کی نوبت بجائی، شوکت اور صولت کا پرچم لہرایا، رواداری، ملن ساری اور امن و امان کا پرچار کیا، ثقافت و کلچر کی ترویج کی، تہذیب و شائستگی کو پھلایا۔
غرض مسلمان چھ سو سال تک دکن کی ترقی میں حصہ لیتے رہے۔ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کا مقامی دکنی معاشرت اور ثقافت پر اثرانداز ہونا ایک یقینی امر تھا۔ لیکن مسلم ثقافت کے ان اثرات کا جامع بیان مفصل کتاب کا متقاضی ہے۔ اس کتاب میں طائرانہ طریقے سے مسلمانوں کے کلچر کی صراحت کی گئی ہے۔ چونکہ دکن میں سلطنتِ آصفیہ مسلمانوں کی آخری حکومت تھی، اس لیے زیادہ تر اسی حکومت کے کلچر کی تفصیل درج کی گئی ہے۔ سلطنتِ آصفیہ میں ملازمت کے دوران فاضل مصنف کو دکنی کلچر کا غائر مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ ’’دکنی کلچر‘‘ میں اُنھوں نے سلطنتِ آصفیہ کے دور کے دکنی کلچر کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ دلچسپ اور نہایت معلومات افزا کتاب دکنیات میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب اربابِ علم اور اصحابِ ذوق کے لیے سامانِ ضیافت مہیا کرتی ہے اور موجبِ دلچسپی ہے۔ اس کتاب کے سات ابواب ہیں اور کتاب کے آخر میں کتابیات دی گئی ہے۔