’’سیّد احمد خاں کا سفرنامۂ پنجاب‘‘ محض ایک سفرنامہ نہیں ہے بلکہ یہ 1857ء کی تباہی کے بعد مسلمانانِ برعظیم کی جہد للبقا کی داستان کا ایک اہم باب ہے۔ سیّد صاحب خلوص و ایقان، فراست و تدبر اور بے پناہ قوتِ عمل سے بہرہ ور تھے۔ اُن کی ملّی حکمتِ عملی اپنے دور کے زہرہ گداز اور ناقابلِ تسخیر حالات سے سمجھوتے پر مبنی تھی، جس پر انہیں طعن و تشنیع، تذلیل و تکفیر، اور سب و شتم کا نشانہ بنایا گیا۔ اس صورتِ حال میں سرسیّد نے دسمبر 1873ء میں پنجاب کا سفر کیا تو اہلِ پنجاب کی طرف سے پُرجوش خیرمقدم نے سرسیّد کے لیے تقدیر کی بازی کا رُخ پلٹ دیا۔ اس صوبے نے سرسیّد کی دعوت پر جس طرح لبیک کہا اُس نے قومی تحریک میں نئی جان ڈال دی۔ صوبہ پنجاب کا سرسیّد کی تائید میں اُٹھنا اس بات کا پیش خیمہ ثابت ہوا کہ کچھ ہی عرصہ بعد یہی پنجاب قائداعظم محمد علی جناح کے پیچھے اُن کی حمایت میں آ کھڑا ہوا۔ سرسیّد اور ان کے رفقا نے چار مرتبہ لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہروں کا سفر کیا۔ پہلے سفر کی تفصیلات تو ہم عصر اخبارات میں دب کر معدوم ہو گئیں۔ سرسیّد کا پنجاب میں دوسرا فاتحانہ داخلہ جنوری 1884ء میں ہوا۔ چار سال بعد دسمبر 1888ء میں پنجاب کی سرزمین تیسری مرتبہ سرسیّد کے قدومِ میمنت لزوم سے مفتخرہوئی۔ سرسیّد کے چوتھے سفرِ پنجاب کی خبر اُن کی وفات سے چند ہی برس پہلے اپریل 1894ء میں ملتی ہے۔
زیرِ نظر کتاب سرسیّد کے دوسرے سفرنامہ پنجاب (1884ء) سے متعلق ہے، جسے سرسیّد کے ایک رفیق مولوی سیّد اقبال علی نے مرتب کرکے زندہ جاوید کر دیا۔ یہ محض ایک سفرنامہ نہیں بلکہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ سرسیّد کا سفرِ پنجاب ایک ایسا دلچسپ سفر ہے جس کے حالات سننے کا ہر شخص مشتاق ہے۔ درحقیقت اس سفر میں جو واقعات پیش آئے، وہ اس زمانے کے دیگر عجائبات سے کچھ کم عجیب نہ تھے۔ اس سفر کے دوران پنجاب کے لوگوں نے ثابت کر دیا کہ وہ قومی بھلائی میں کوشش کرنے والے ریفارمرکی کیسی قدر کرتے ہیں۔ اس سفر میں سیّد احمد خان کا گزر لدھیانہ، جالندھر، امرتسر، گورداسپور، لاہور اور پٹیالہ میں ہوا۔ ہر مقام پر شان و شوکت سے اُن کا استقبال ہوا۔ کئی جگہوں پر خطاب ہوئے۔ ان سب واقعات و جزئیات اور تقاریر و ایڈریسز کو مولوی سیّد اقبال علی ایک رسالے میں جمع کر کے محفوظ کر دیا۔