حافظ محمود شیرانی کے مقالات 1922ء سے 1927ء تک انجمن ترقی اُردو کے سہ ماہی رسالے ’’اُردو‘‘ (دکن) میں قسط وار شائع ہوتے رہے۔ ان میں کمال اسماعیل پر تنقیدی مضمون شامل کر کے ’’تنقید شعر العجم‘‘ کتابی صورت میں پہلی بار 1942ء میں انجمن ترقی اُردو، دہلی نے شائع کی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن مجلس ترقی ادب نے مقالاتِ حافظ محمود شیرانی کی پانچویں جلد کے طور پر 1970ء میں شائع کیا۔ جس میں کچھ اضافے بھی کیے گئے تھے۔ حافظ شیرانی کا شمار اُردو کے ان محققین اور ناقدین میں ہوتا ہے جو حقائق کی بازیافت کے لیے امورِ متعلقہ کی صحت کو کڑے معیار پر پرکھ کر اپنی تحریر و تحقیق کا حصہ بناتے ہیں۔ جن لوگوں نے انھیں خارزارِ تحقیق میں مگن دیکھا ہے ان کا کہنا ہے کہ حافظ صاحب اپنے تحقیقی کام میں اس قدر محو ہوا کرتے تھے کہ انھیں موسم کی تلخی و آسائش سے کچھ علاقہ نہ رہتا۔ حقائق کے کھوج میں ان کی ژرف نگاہی مثالی تھی۔ یہی باعث ہے کہ اکثر موضوعات پر ان کے تحقیقی مقالے اہلِ علم و دانش کے ہاں مقبول ہوئے۔ انھیں اپنے معاصرین اور پیش روئوں سے ان کی تن آسانی اور کوتاہ کوشی کا گلہ تھا۔
حافظ صاحب نے اپنی زیرِ نظر کاوش کو مولانا شبلی کی فضیلتِ علمی کی منقصت کے بجائے محض احتجاج، قرار دیا ہے۔ تنقید شعرالعجم کے حصہ اوّل میں شہید بلخی، رودکی، دقیقی، ابو شکور بلخی، عمارہ مروزی و دیگر شعرا کے علاوہ دورِ غزنویہ، چوتھے دور کے شعرا، متفرق معلومات اور نظامی و فردوسی کے احوال و آثار شامل ہیں۔ حصہ دوم میں شیخ فرید الدین عطار کے احوال و آثار اور کمال اسماعیل کے حالات اور متعدد ضمایم کے علاوہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال (سابق پرنسپل اورینٹل کالج) کا عمر خیام پر لکھا مضمون بھی شامل ہے۔ کتاب کے آخر میں حواشی اور اشاریہ بھی فراہم کیا گیا ہے جس سے فارسی کے محققین اور طلبہ کے لیے اس ضخیم کتاب کا مرحلہ وار مطالعہ آسان ہو گیا ہے۔ یہ کتاب مقالات کی پانچویں جلد ہے جس میں شبلی نعمانی کی مشہور کتاب "شعر العجم” پر لکھے گئے تنقیدی مقالات ہیں۔