مصوری ایک فن ہے اور ایک عظیم فنکار کی شناخت یہ ہے کہ وہ اپنے طرز کو خود ہی جنم دیتا ہے اور مآلِ کار اس طرز کا خاتمہ بھی اس کی ذات کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے۔ محمد عبدالرحمن چغتائی نے جس صنفِ مصوری میں نام پیدا کیا، اس کی بنیاد بھی اُنھوں نے ہی ڈالی تھی اور انھی کے ساتھ وہ طرزِ مصوری بھی رخصت ہو گئی۔ وہ اپنے عہد کے منفرد فن کار تھے۔ ان کی تصاویر میں قدیم اسلامی تہذیب کی علامتیں فنی نفاست کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔ چغتائی نے بچپن ہی سے اپنے فن کو فوٹوگرافی سے مختلف رکھا تھا کیونکہ فوٹوگرافی میں بالکل صحیح عکس ہوتا ہے اور آرٹ میں وہ ’’پُراسراریت‘‘ اور ’’معنی خیزی‘‘ ہوتی ہے جو اس فن کی جان ہے۔ اُنھوں نے ہیئت کی قیود اور حد بندیوں کو عبور کر کے نہ صرف اپنے ’’موضوع‘‘ کے بعض مخفی پہلوئوں کو منکشف کیا بلکہ ان کے انتخاب میں اپنی ایک خاص جذباتی جہت کو بروئے کار لا کر شرکت کی بھرپور مثال بھی پیش کر دی ہے اور یہی صفت وہ وصف ہے جس نے چغتائی کو اپنے عہد میں انفرادیت عطا کی۔ نقادانِ فن نے آرٹ کو ’’زندگی کا آئینہ‘‘ قرار دیا ہے۔ بیشک یہ سچ ہے، لیکن زیادہ تر اس سے غلط فہمیوں ہی نے جنم لیا ہے۔ عبدالرحمن چغتائی کا فن نہ محض تجریدی آرٹ کا نمونہ ہے اور نہ محض Representative Art کا، بلکہ ایک ایسا آرٹ ہے جس میں فنکار نے ہیئت کی قیود اور حدبندیوں کو عبور کر کے نہ صرف اپنے ’’موضوع‘‘ کے بعض مخفی پہلوؤں کو منکشف کیا ہے بلکہ ان کے انتخاب میں اپنی ایک خاص جذباتی جہت کو بروئے کار لا کر شرکت کی بھرپور مثال بھی پیش کر دی ہے۔
چغتائی کے آرٹ میں چہروں، ملبوسات اور پیکروں کا بہ یک وقت ارضی و غیرارضی اور اصل سے مشابہ و اصل سے مختلف ہونا فنی اعجاز ہے اس کے علاوہ وہ رنگوں کو بھی اپنے انفرادی انداز میں بروئے کار لائے ہیں۔ جس طرح شاعر لفظ کو اپنے تخلیقی کرب سے گزار کر ایک نئی صورت عطا کر دیتا ہے بالکل اسی طرح چغتائی نے ہر رنگ کو ایک نیا رنگ بخشا ہے اور یہ نئے رنگ ان انوکھی کیفیات کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو اُن کے تصور میں اُبھری تھیں۔ چغتائی کا کمال یہ ہے کہ اُنھوں نے نمائندگی اور تجریدیت کے عناصر کو اپنی ذات کے کرب سے گزار کر کیا سے کیا کر دیا ہے اور یوں مصوری کے ایک ایسے نمونے کو خلق کیا ہے جو قطعاً منفرد اور یکتا ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں مختلف اہلِ قلم حضرات کے مضامین شائع کیے گئے ہیں جن میں اُنھوں نے چغتائی کے فن کی توضیح بھی کی ہے اور ان کی رفعت و عظمت کا اعتراف بھی کیا ہے۔