ڈاکٹر احمد امین عہدِ قریب کے مشہور مصری مصنف تھے۔ ان کی کتابوں میں سے ’’فجر الاسلام‘‘، ’’ضحی الاسلام‘‘ اور ’’ظہر الاسلام‘‘ نے عالم گیر شہرت حاصل کی ہے۔ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن اپنے شوق، محنت اور جدوجہد کی بدولت بہت جلد مصری ادیبوں کی صفِ اوّل میں اپنا مقام پیدا کر لیا۔ پہلے وہ محکمۂ شرعیہ میں قاضی تھے۔ اس کے بعد جامعۂ مصریہ میں ادبِ عربی کے پروفیسر اور آرٹس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ وزارتِ معارف اور جامعۂ دول العربیہ (عرب لیگ) کے ثقافتی شعبوں کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ وہ خالص علمی آدمی تھے۔ ساری عمر مصر کی مشہور انجمن لجنۃ التالیف والترجمۃ والنشر کے صدر رہے۔ اس انجمن نے عالمِ عرب کی ذہنی بیداری میں جو حصہ لیا ہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔ یہ انجمن آج تک دو ڈھائی سو کے قریب کتابیں شائع کر چکی ہے، جن میں نادر مخطوطات کی اشاعت کے علاوہ مغربی تصانیف کے تراجم بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر احمد امین کا ایک عملی کارنامہ عوامی یونیورسٹی (جامعہ شعبیہ) کا قیام ہے جس میں رات کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
یہ کتاب ڈاکٹر امین کی خود نوشت سوانح ’’حیاتی‘‘کا اُردو ترجمہ ہے۔ عربی زبان میں خود نوشت سوانح کی کمی نہیں۔ علمائے اسلام میں امام غزالی، ابن الجوزی اور ابن خلدون نے اپنی زندگی کے مشاہدات اور تجربات بیان کیے ہیں۔ عصرِ حاضر میں ڈاکٹر طہٰ حسین کی کتاب ’’الایام‘‘ نے بڑی شہرت پائی لیکن ادب کی اس صنف کی تکمیل ڈاکٹر احمد امین نے کی ہے۔ اس خودنوشت سوانح میں اُنھوں نے اپنی طالب علمی کی داستان کو خوب مزے لے لے کر بیان کیا ہے۔ ازہر کی تعلیم کے نقائص بھی کھول کر لکھے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغربی تعلیم اور تمدن کے زیرِاثر زندگی کی پرانی قدروں کی جگہ نئی قدریں لے رہی تھیں اور مشرقی تہذیب اور مغربی تمدن میں کش مکش پیدا ہو رہی تھی۔ اس تہذیبی آویزش کی داستان سرائی اُنھوں نے دل کش انداز میں کی ہے۔ کتاب میں مصر کے معاشرتی اور سیاسی حالات کم لیکن علمی اور تعلیمی کوائف زیادہ ملتے ہیں۔ کتاب کا ترجمہ اس مقصد سے شائع کیا جا رہا ہے کہ شاید اس کو پڑھ کر کسی کے دل میں علم کی سچی لگن پیدا ہو سکے جس کے لیے مصنف مرحوم عمر بھر کوشاں رہے۔