شیخ امام بخش ناسخ اردو غزل میں ایک عہد ساز شخصیت کا نام ہے۔ ان کو شاعری کے لکھنو اسکول کا بانی کہا جاتا ہے۔ ناسخ اپنی شاعری میں لفظوں کے نئے نئے تلازمے تلاش کرکے ان کے لیے نئے استعارے وضع کرتے ہیں وہ بے جوڑ الفاظ میں اپنی صناعی سے ربط پیدا کرکے قاری کو اک حیرت آمیز مسرت سے دوچار کرتے ہیں۔ ان کی بلند آہنگی ذہنوں کو متاثر کرتی ہے۔ وہ اپنی خیال آفرینی میں بھاری بھر کم الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ان کی خاص توجہ لفظوں سے مضمون پیدا کرنے پر تھی لفظ ثقیل ہے تو ہوتا رہے، مضمون رکیک ہے تو ان کی بلا سے۔ یہ اندازِ بیاں اپنی بہترین شکل میں ’’معنی آفرینی‘‘ اور ’’تلاش مضمون تازہ‘‘ کی سند پاتا ہے جبکہ اپنی بدترین صورتوں میں رکیک اور مبتذل ٹھہرتا ہے۔ ناسخ نے عربی کے ثقیل الفاظ اپنے کلام میں استعمال کرکے اپنی شاعری کو فصاحت کے مسلمہ معیاروں سے نیچے گرا دیا۔ زبان کے تیوروں اور اظہار کے پینتروں کے معاملے میں ناسخ کی ایک اپنی انفرادیت ہے جس کا مطالعہ تاریخ شعر و ادب کے طالب علم کے لیے ضروری ہے۔
امام بخش ناسخ صاحبِ دیوان شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں لفظوں کی صحت اور اصولِ شاعری کا کافی خیال کیا گیا ہے۔ انھوں نے زیادہ تر غزلیں کہیں ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے رباعیاں، قطعات، تاریخیں اور مثنویاں بھی لکھیں ہیں۔ انھوں نے مشکل زمینوں، انمول قوافی اور طویل ردیفوں میں صرف شاعری ہی نہیں کی بلکہ استادی بھی تسلیم کرائی۔ انھوں نے زبان و بیان کے قوانین کی خود پیروی کی اور اپنے شاگردوں سے بھی ان کی پابندی کرائی۔ زیرِ نظر کتاب ناسخ کا کلیات ہے۔ اس کلیات میں ناسخ کے دونوں دیوانوں کو ایک ساتھ پیش پیش کرکے کلیات کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس کلیات کو دیگر قدیم نسخوں کو سامنے رکھ کر مثلا نسخۂ مصطفی 1267ء، مطبع نولکشور، اور محمدی کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔ لہٰذا متن میں نسخہ نول کشور 1872ء کو رکھا گیا ہے اور نسخہ مصطفائی (اول دوم) اور نسخۂ مطبع محمدی کے اختلافات کو حاشیے میں درج کیا گیا ہے۔ اس کلیات کو مجلس ترقی ادب لاہور نے دو جلدوں میں شائع کیا ہے، جسے یونس جاوید نے مرتب کیا ہے۔ دوسری جلد کے حصہ دوم میں دیوانِ دوم کی غزلیات، رباعیات و قطعات شامل ہیں جن میں 166 غزلیں، 62 رباعیات، 154 قطعات، 12 خاتمے ہیں۔