برصغیر کی موسیقی (جنگِ آزادی 1857ء سے پہلے اور بعد)
برصغیر پاک و ہند کی موسیقی میں سے مسلمانوں کی کاوشیں نکال دی جائیں تو باقی بچتا ہی کیا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے ان خدمات کو دستاویزی شکل دینے میں شدید کوتاہی سے کام لیا ہے، آج ہندوستان میں موسیقی کے کئی جرنلز موجود ہیں جن میں ہندوستانی اور کرناٹکی ہر دو قسم کی موسیقی پر تحقیقی مقالے شائع ہوتے ہیں؛ ہمیں بھی اس سلسلے میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ برصغیر کی موسیقی ایک ارتقائی عمل سے گزری ہے اور یہ تبدیلیاں ساخت کے ساتھ ساتھ اس کے مزاج میں بھی ہوئی ہیں۔ اس سفر میں مسلمانوں کی خدمات شاندار رہی ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے قبل ہندوستانی موسیقی میں سات سُر ، بائیس شُرتیاں، چھ راگ، تیس راگنیاں اور اکیس مُورچھن متعارف ہو چکے تھے۔ نیز اس وقت کے گیتوں میں چھند، پربندھ، اشلوک، بھجن، دھرُو، پَد وغیرہ شامل تھے جنھیں ڈھیلے ڈھالے طریقے سے مرق، اور دیشی راگوں میں بانٹا جاتا تھا۔
711ء میں محمد بن قاسم کی آمد سے بہت پہلے، جنوبی ہندوستان کے بہت سے حصوں میں مسلمانوں کی بستیاں آباد اور مساجد تعمیر ہو چکی تھیں۔ فطری طور پہ ان علاقوں کے رہائشی عربی موسیقی سنتے تھے۔ لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ محمد بن قاسم کی آمد سے قبل، جنوبی ہندوستان میں عربی موسیقی کا رواج ہو چکا تھا۔ محمد بن قاسم کی آمد کے بعد عرب سندھ میں بس گئے اور محمد بن قاسم نے برہمنوں کو اونچے عہدوں پہ فائز کیا۔ مقامی خواتین میں سے اسلام قبول کر لینے والیوں سے شادیاں ہونے لگیں۔ منصورہ، خضدار، بائزہ، محفوظہ اور ملتان فنونِ لطیفہ اور علمی سرگرمیوں کے مراکز بن گئے۔ مقامی عالموں اور فنکاروں سے عرب متاثر ہوئے اور ثقافتوں کا ادغام شروع ہو گیا۔ زیرِ نظر کتاب عنایت علی ملک کے مضامین پر مشتمل ہے جو برصغیر کی موسیقی کے بارے میں ہیں۔ ان مضامین کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اوّل جنگِ آزادی سے پہلے اور دوم جنگِ آزادی کے بعد۔