تعارف مجلس ترقی ادب، لاہور
ادبِ عالیہ کے فروغ کیلئے مجلس ترقی ادب، لاہور، حکومتِ پنجاب کا ایک علمی و ادبی ادارہ ہے۔کلاسیکی ادب سے جدید ادب تک گلہائے رنگا رنگ مجلس کے دامن میں موجود ہیں۔شعرو سخن کی خوشبو اور علم کی روشنی یہاں آپس میں ہم آغوش ہیں۔فیض نے کہا تھا
دوستو اُس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر
گلستاں کی بات رنگیں ہے نہ مہ خانے کا نام
اس ادارے کے چشم و لب میں امتیاز علی تاج (16 جنوری 1960ء – 19 اپریل 1970ء)۔پروفیسر حمید احمد خان (11 جولائی 1970ء – 22 مارچ 1974ء)۔احمد ندیم قاسمی (4 جولائی 1974ء – 10 جولائی 2006ء)۔ شہزاد احمد (23 اگست 2006ء – یکم اگست 2012ء)۔ڈاکٹر تحسین فراقی (18 مارچ 2013ء – 22 فروری 2021ء)۔ منصور آفاق (22 فروری 2021ء سے تا حال) جیسے بڑے لوگ شامل ہیں۔ اس وقت مجلس اپنا ستر سالہ جشنِ ولادت منا رہی ہے۔
گھنا کچھ اور سایہ ہو گیا ہے
شجر ستر برس کا ہو گیا ہے
یہ ادارہ، مجلس ترجمہ کے نام سے حکومتِ مغربی پاکستان نے 1950ء میں محکمہ تعلیم کی نگرانی میں قائم کیا تھا۔ جولائی 1954ء میں مجلسِ ترجمہ کی تنظیم نوکی گئی اور اس کا نام مجلسِ ترقی ادب رکھا گیا۔ بعدازاں حکومتِ پاکستان نے 10 فروری 1958ء کے اعلامیے کے ذریعے مجلسِ ترقی ادب کی تشکیلِ نو کی۔ علم و ادب اور قومی زبان کی خدمت کے لیے کئی ادارے ہیں۔ لیکن برعظیم کی طباعت و اشاعت کی تاریخ میں مجلس ترقی ادب کا ادارہ اس اعتبار سے بے مثال ہے کہ اپنے مقصدسے عہدہ برآ ہونے کے لیے اس نے فرض شناسی اور کارکردگی کا حیرت انگیز کردار ادا کیا ہے۔
1958ء تک کل پندرہ تراجم شائع ہوئے، جن کے نام یہ ہیں:
- جدید سیاسی نظریہ (انگریزی سے ترجمہ)
- غیب و شہود (انگریزی سے ترجمہ)
- نظامِ معاشرہ اور تعلیم (انگریزی سے ترجمہ)
- فلسفہ شریعتِ اسلام (عربی سے ترجمہ)
- مقدمہ حکمتِ قرآن (عربی سے ترجمہ)
- تعارف فلسفۂ جدید (انگریزی سے ترجمہ)
- دولتِ اقوام، ج 3 (انگریزی سے ترجمہ)
- مطالعۂ تاریخ، ج 1 (انگریزی سے ترجمہ)
- سائنس سب کے لیے، ج 1 (انگریزی سے ترجمہ)
- اسلام اور تحریکِ تجدد مصر میں (انگریزی سے ترجمہ)
- قطبی برفستان (انگریزی سے ترجمہ)
- دولتِ مغلیہ کی ہیئت مرکزی (انگریزی سے ترجمہ)
- مقدمہ تاریخ سائنس، حصہ اوّل (انگریزی سے ترجمہ)
- تشکیلِ انسانیت (انگریزی سے ترجمہ)
- نفسیات وارداتِ روحانی (انگریزی سے ترجمہ)
- شکیلِ نو کے بعد مجلس کے لیے جو اغراض و مقاصد وضع ہوئے وہ درج ذیل ہیں:
- کلاسیکی ادب کی اشاعت کا بندوبست
- ادبِ عالیہ کی تشکیل میں معاونت
- معیاری کتابوں کو ترجمہ کرا کے شائع کرنا
- ہر سال بہترین ادبی مطبوعات کے مصنّفین کو انعام دینا
- سال کے بہترین مطبوعہ مضامین اور منظومات پر انعام دینا
ان اغراض و مقاصد کے تحت مجلس نے جو کام کیا اس کی ایک جھلک ہم دلی خوشی اور فخر کے ساتھ یہاں پیش کرتے ہیں۔
کلاسیکی ادب کا سلسلہ:
مجلس کی مطبوعات میں کلاسیکی کتابوں کا سلسلہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔
کلاسیک میں وہ کتابیں شامل ہیں، جو ہماری علمی، ادبی اور ثقافتی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ ہم نے کس طرح سوچا، کس طرح محسوس کیا اور کس طرح تاریخی، سیاسی، ثقافتی اور قومی پس منظر میں زندگی بسر کی، کلاسیک ان سب امور کے ادبی اور لسانی ریکارڈ کا نام ہے۔ جس طرح ایجاداتِ انسانی فکری اور تدبیری زندگی کو پیش کرتی ہیں، اسی طرح کلاسیک انسان کی تخلیقی زندگی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ مجلس سے جو کلاسیکی ادب شائع ہوا ہے، اس کا موضوع داستان، حکایت، شاعری، فلسفہ، تاریخ، سوانح، سفرنامہ، مکاتیب اور یادداشت ہے۔ ترتیب و تدوین اور اشاعت کے اعتبار سے ان کتابوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
وہ کتابیں جو مخطوطات کی صورت میں تھیں اور مجلس نے انھیں پہلی مرتبہ شائع کیا۔
وہ کتابیں جو ایک مرتبہ چھپی تھیں، ہمارے ادب کی تاریخ میں بطور حوالہ شامل تھیں، لیکن نایاب ہو چکی تھیں۔
وہ کتابیں جو بازار میں دستیاب تھیں لیکن ان کے ایڈیشن اور متن تصحیح طلب تھے۔
مخطوطات کے ضمن میں مندرجہ ذیل کتابیں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔
عجائب القصص از شاہ عالم ثانی
تذکرۂ طبقات الشعراء
تذکرۂ خوش معرکۂ زیبا
کلیاتِ مصحفی
کلیاتِ میر سوز
کلیاتِ جرأت
کلیاتِ قائم چاند پوری
کلیاتِ شاہ نصیر
دیوانِ جہاں دار وغیرہ
عجائب القصص مغل فرمانروا شاہ عالم ثانی کی نثری تصنیف ہے۔ جس نسخے سے اسے مرتب کیا گیا ہے، وہ معلومات کے اعتبار سے دُنیا بھر میں واحد ہے اور پنجاب یونیورسٹی لائبریری کی ملکیت ہے۔ یہ کتاب 1207ھ میں تصنیف ہوئی۔ یہ 1965ء میں مجلس ترقی ادب کی طرف سے پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔دیوانِ جہاں دار، شاہ عالم ثانی کے بیٹے شہزادہ جہاندار کا اُردو دیوان ہے۔ معلومہ لائبریریوں میں اس کے دو مخطوطے ابھی تک معلوم ہو سکے ہیں۔ ایک برٹش لائبریری لندن میں ہے اور دوسرا جو پنجاب یونیورسٹی لائبریری کے ذخیرۂ آذر کی زینت ہے۔ مجلس نے یہ دیوان پہلی مرتبہ شائع کیا ہے، یہ نسخہ پنجاب یونیورسٹی کے مخطوطے پر مبنی ہے۔ اور اُردو کے مشہور محقق ڈاکٹر وحید قریشی نے اپنے مبسوط مقدمے اور حواشی کے ساتھ مرتب کیا ہے۔
قدرت اللہ شوق سنبھلی کا تذکرہ طبقات الشعراء اُردو تذکروں میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ 1188ھ میں تصنیف ہوا اور مصنف نے 1209ھ تک اس میں اضافے کیے۔ دُنیا بھر میں اس کے معلومہ نسخوں کی تعداد پانچ سے زیادہ نہیں۔ مجلس ترقی ادب کی وساطت سے اس تذکرے کا متن پہلی مرتبہ زیورِ طبع سے آراستہ ہوا ہے۔ مجلس کے نسخے کا متن کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد دکن کے قلمی نسخے پر مبنی ہے۔ جس کے بارے میں مرتب کا کہنا ہے کہ اس کا متن باقی تمام نسخوں کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے اور غالباً خود مؤلف کی نظر سے گزر چکا ہے۔
سعادت خاں ناصر کا تذکرہ خوش معرکۂ زیبا شعراے لکھنؤ کے سلسلے میں اہم ترین مآخذ ہے۔ یہ ایڈیشن معروف محقق جناب مشفق خواجہ نے چار قلمی نسخوں کے حوالے سے تیار کیا ہے۔ یہ تذکرہ پہلی بار شائع ہوا ہے۔
مصحفی اُردو غزل کے اساتذہ میں سے ہیں۔ 1824ء میں فوت ہوئے، نو جلدوں پر مشتمل ضخیم کلیات ہے۔ جس کے نسخے پاکستان اور بھارت کے متعدد شہروں میں موجود ہیں، کئی انتخاب اور بیسیوں مضامین ان کے بارے میں شائع ہو چکے ہیں۔ مجلس نے مختلف خطی نسخوں سے تقابل کروا کر یہ کلیات شائع کیا ہے۔
میر سوز کا یہ کلیات متعدد قلمی نسخوں کی مدد سے پہلی بار مدون ہوا ہے۔ ان میں میر سوز کا نوشتہ ان کے کلام کا انتخاب ہے جو خود اُنھوں نے کیا۔ علاوہ ازیں اُردو ڈکشنری بورڈ، برٹش میوزیم اور ملائشیا کے قلمی نسخوں کو بھی پیشِ نظر رکھا۔ مجلس نے یہ کلیات 2 جلدوں میں شائع کیا ہے۔ اسے ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے 2 جلدوں میں مرتب کیا ہے۔
کلیاتِ جرأت کے مخطوطے یورپ، بھارت اور پاکستان کی مختلف لائبریریوں سے حاصل کیے گئے ہیں۔ مجلس نے کلیاتِ جرأت کی جلد اوّل حصۂ غزلیات ا تا ن شائع کی ہے۔
قائم چاند پوری کا یہ کلیات متعدد قلمی نسخوں کی مدد سے پہلی بار مدون ہوا ہے۔ ان میں نسخۂ انڈیا آفس لائبریری کا نسخہ جو قائم کی حیات میں مرتب ہوا، بنگال ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ، رضا لائبریری رام پور، انجمن ترقیِ اُردو پاکستان کراچی کے مخطوطات کے علاوہ مطبوع نسخے بھی پیشِ نظر رکھے گئے۔ اسے ڈاکٹر اقتدا حسن نے دو جلدوں میں مرتب کیا ہے۔
شاہ نصیر کا یہ کلیات مکمل اور صحیح متن کے ساتھ پہلی بار شائع ہوا ہے جو متعدد قلمی اور مطبوعہ نسخوں کی مدد سے مدون ہوا ہے۔ ان میں کتب خانہ آصفیہ، سالار جنگ میوزیم، رضا لائبریری، ادارۂ ادبیات کے مخطوطات کے علاوہ مطبوعہ نسخے بھی پیشِ نظر رکھے گئے ہیں۔ اسے ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے مرتب کیا ہے۔
مخطوطات کے علاوہ کلاسیکی ادب میں ایسی کتابیں شامل ہیں جن کا تعلق اُردو شاعری اور نثر کے مختلف دبستانوں سے ہے۔ یہ سارا سلسلہ تاریخ ادب کی ایک جامع ترتیب ہمارے سامنے لاتا ہے۔
اس کام کو موضوعات کے اعتبار سے مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
اُردو نثر کے مختلف اسالیب
شاعری
منظوم داستانیں
گرائمر
تاریخ و تمدن و معاشرت
اس موضوعاتی تقسیم کو ادب کے مختلف دبستانوں میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس کی صورت یوں بنتی ہے:
فورٹ ولیم کالج کی اُردو نثر، معاصر اور گزشتہ ادب کے آئینے میں۔
دہلی،لکھنؤ، لاہور اور کراچی کے اساتذہ کے کلیات اور دواوین۔
جنوبی ہند، شمالی ہند اور اطراف کے منظوم قصے اور داستانیں۔
غالب کے بعد کی نظم و نثر۔
پاکستان اورہندوستان کے تاریخی، تمدنی اور سیاسی حالات پر مشتمل یادداشتیں اور سفرنامے وغیرہ۔
اقبال کے بعد اردو نظم و نثر
مجلس نے شہرت پر توجہ کم اور کام کے معیار اور قدر و قیمت کی اہمیت زیادہ دی ہے۔ مجلس ترقی ادب یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہے کہ اس نے اعلیٰ پائے کے تحقیقی کام کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پایے کے محققین کی تربیت بھی کی ہے۔ اس لحاظ سے مجلس ترقی ادب کو ایک ادارے سے زیادہ ایک علمی دبستان ہونے کا بھی فخر حاصل ہے۔ جس طرح حافظ محمود شیرانی کے تحقیقی کارناموں نے کتاب کے سرسری مطالعے کی راہیں مسدود کر دی تھیں۔ اسی طرح مجلس ترقی ادب کے اشاعتی کارناموں نے کتاب پر سرسری کام کرنے والوں میں احساسِ ذمہ داری پیدا کیا ہے۔ مجلس ترقی ادب کی طرف سے شائع ہونے والی کلاسیکی کتابوں کی ایک اہم خصوصیت ان پر مبسوط اور عالمانہ مقدمے، حواشی اور تعلیقات ہیں۔ مجلس نے اس کام کو ایک خاص معیار اور ذوقِ نظر دیا ہے۔ مرتبین کی فہرست میں بعض نام آپ کو بالکل نئے اور غیرمعروف نظر آئیں گے، لیکن ان کے کام اہلِ علم سے خراجِ تحسین حاصل کر چکے ہیں۔
کلاسیکی ادب کی اشاعت محض قارئین ہی کے لیے نہیں بلکہ تاریخِ ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ لہٰذا مرتب کو ہر کتاب پر تعارف اور تحقیق میں اس بات کی کوشش کرنی پڑتی ہے کہ اس کی ادبی قدر و قیمت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ تاریخِ ادب میں اس کی اہمیت کا جواز بھی پیدا کرے۔ پاکستان کے کسی دوسرے ادارے میں کلاسیکی ادب پر اس معیار کی خصوصی توجہ مجلس کے مقابلے میں کہیں نظر نہ آئے گی۔
کلاسیکی ادب میں فورٹ ولیم کی کتابوں کے علاوہ 1800ء سے پہلے کی تصانیف بھی شائع کی گئی ہیں۔ شاہ عالم ثانی کی عجائب القصص جو مخطوطے کی صورت میں تھی، پہلی مرتبہ مجلس کی طرف سے ہی شائع ہوئی ہے۔فورٹ ولیم کالج کی کتابیں، انگلستان، بھارت اور پاکستان کی مختلف لائبریریوں سے حاصل کی گئی ہیں اور انھیں ترتیب و تدوین کے جدید اُصولوں کے مطابق مرتب کیا گیا ہے۔سرسیّد تحریک کے سلسلے میں سرسیّد، حالی، شبلی، آزاد وغیرہ کے ادبی کارنامے طبع ہو چکے ہیں۔ سرسیّد کے مقالات سولہ حصوں میں مرتب ہوئے ہیں۔ سرسیّد پر اس قدر جامع کام مجلس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ کلاسیک میں اب تک دو سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔
تصانیف:
مجلس میں جو تصنیفی کام ہوا اس کو تین موضوعات میں رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔
سوانح
تنقید
تاریخ
سوانحی تصانیف میں مومن، حالاتِ زندگی اور کلام (1961ء) اور ذوق، سوانح اور انتقاد قابلِ ذکر ہیں۔ اوّل الذکر کتاب کے مصنف مجلس کے مدیر کتب جناب کلب علی خاں فائق ہیں اور مؤخر الذکر کتاب جناب ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی ہے۔ یہ دونوں کتابیں اہلِ علم سے غیرمعمولی خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔تنقید کی کتابوں میں اصولِ انتقادِ ادبیات، شاعری اور تخیل، مغربی شعریات اور ڈرامہ نگاری کا فن، جہاں اصولِ تنقید کے بعض اہم مسائل کو زیرِ بحث لاتی ہیں، وہاں حالی کی نثرنگاری، مرزا ہادی رسوا، میر امن سے عبدالحق تک اور مباحثِ عملی تنقید کا ایک اعلیٰ معیار پیش کرتی ہیں۔ ان کتابوں کے مصنّفین سیّد عابد علی عابد، پروفیسر ہادی حسین، ڈاکٹر عبدالقیوم، ڈاکٹر محمد اسلم قریشی، ڈاکٹر میمونہ انصاری اور ڈاکٹر سیّد عبداللہ ہیں۔
تصانیف میں تحقیقی مقالات کا ایک سلسلہ بھی نظر آتا ہے۔ ان میں آبِ حیات کی حمایت میں اور دوسرے مضامین از ڈاکٹر محمد صادق، یورپ میں تحقیقی مطالعے مصنفہ آغا افتخار حسین اور مضامینِ ڈار کے علاوہ پانچ بلند پایہ محققین کی تصانیف خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
حافظ محمود شیرانی۔ مقالاتِ شیرانی، دس جلدیں ۔
مولوی محمد شفیع۔ مقالات پانچ جلدیں و یاداشت ہائے مولوی محمد شفیع
امتیاز علی خاں عرشی۔ مقالاتِ عرشی
قالاتِ عبدالستار صدیقی، 2 ج
مقالاتِ عبدالعزیز میمن
ان تحقیقی کارناموں کی اشاعت جہاں مجلس ترقی ادب کے لیے باعثِ فخر ہے، وہاں اُردو ادب کے تحقیقی شمارے میں اہم ترین اضافے کا بھی سبب ہے۔تاریخ کی کتابوں میں سب سے اہم نام شاہجہان نامہ 3 ج، دولتِ مغلیہ کی ہیئت مرکزی، دربارِ ملّی اور دکنی کلچر کے ہیں۔ ان کتابوں کے مصنّفین نے مسلمانانِ پاک و ہند کی سیاسی زندگی کو جس تناظر میں پیش کیا ہے۔ اس کی اہمیت کسی طرح سے کم نہیں۔سیاسی تاریخ کے علاوہ تاریخِ صحافت پر بھی دو کتابیں شائع ہوئیں۔’’اُردو صحافت پاکستان و ہند میں‘‘ اور ’’اُردو صحافت انیسویں صدی میں‘‘۔
مجلسِ ترقّیِ ادب کے قواعد میں جس طرح پہلے عرض کیا گیا، بلند پایہ ادب کے تراجم کی اشاعت بھی تھا۔ یہ تراجم مختلف موضوعات لیے ہوئے ہیں۔ جن میں سے اہم یہ ہیں:(1) فلسفہ، (2) انسانیات، (3) تاریخ، (4) سیاست، (5) داستان، (6) نفسیات، (7) مذہب، (8) تنقید، (9) سائنس، (10) سوانح، (11) معاشیات، (12) تعلیمات، (13) جغرافیہ، (14) عمرانیات، (15) تاریخِ ادب، (16) ڈراما۔
فلسفۂ انسانیات اور نفسیات کے موضوع پر جن اہم مصنّفین کی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں امام غزالی، ایڈون اے۔ برٹ، جی۔ای۔ مور، جیمز جارج فریزر، ولیم جیمز اور برٹرینڈ رسل کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ٹائن بی کا نام علمِ تاریخ کا اہم ترین حوالہ ہے۔ مجلس نے ان کی مشہور کتاب A Study of History کی تلخیص از ڈی سی سمر ویل کا ترجمہ مطالعۂ تاریخ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ سارٹن کی مقدمہ تاریخِ سائنس، تزکِ جہانگیری، تاریخِ بخارا، مسلمانوں کی سیاسی تاریخ وغیرہ۔ ایسی قابلِ قدر تصانیف کے تراجم بھی مجلس کی طرف سے شائع ہوئے ہیں۔
آر۔سی۔ٹمپل کی حکایات پنجاب، ایل۔ایل۔ہوگبن کی سائنس سب کے لیے، نظام الملک طوسی کا سیاست نامہ ایڈم سمتھ کی دولت اقوام اور ای۔کیوری کی مادام کیور ی کے تراجم بھی مجلس کی طرف سے شائع ہوئے۔تراجم کی مجموعی تعداد ساٹھ کے لگ بھگ ہے۔
مجلس کی مطبوعات میں اس کے سہ ماہی مجلے صحیفہ کا ذکر خاص طور پر اہم ہے۔ صحیفہ ایک تحقیقی مجلہ ہے، جس میں علمی و ادبی موضوعات کے علاوہ پاکستان کے مختلف حصوں کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ پر تحقیقی مقالات شائع ہوتے ہیں۔