’’امرائو جان ادا‘‘ مرزا محمد ہادی رسوا لکھنوی کا معرکۃ الآرا معاشرتی ناول ہے، جس میں اُنیسویں صدی کے لکھنؤ کی سماجی اور ثقافتی جھلکیاں بڑے دل کش انداز میں دکھلائی گئی ہیں۔ لکھنؤ اُس زمانے میں موسیقی اور علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ رسوا نے اس خوب صورت محفل کی تصویریں بڑی مہارت اور خوش اسلوبی سے کھینچی ہیں۔ ’’امرائو جان ادا‘‘ کی ہمارے ادب میں ایک تاریخی حیثیت ہے۔ یہ ناول زندگی کی واقعیت اور فن کی حسن کاری کو جنم دیتا ہے۔ ناول کے کردار مرزا کے اپنے ماحول کے چلتے پھرتے افراد ہیں۔ ہر اچھے ناول نگار کی طرح رسوا کی یہ خوبی ہے کہ وہ یہ کبھی ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ کردار ان کی تخلیق ہے اور وہ اسے اپنے مقصد کے آلۂ کار کی حیثیت سے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ تصویر میں رنگ بھرنا جانتے ہیں۔ اس ناول میں احساسِ توازن پایا جاتا ہے۔ کردار اور پلاٹ ایک دوسرے میں گھل مل گئے ہیں۔ طنز، شوخی، تشبیہات، محاورات، منظرنگاری سبھی کچھ ایک خاص ترکیب و ترتیب میں لائے گئے ہیں۔
گزشتہ نصف صدی سے یہ ناول پاکستان و ہند کی مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل رہا ہے اور اس کے متعدد ایڈیشن، لاہور، کراچی، لکھنؤ الٰہ آباد، دہلی اور حیدرآباد دکن سے شائع ہوئے ہیں۔ غالباً اس افراطِ اشاعت میں صحتِ زبان سے لاپروائی برتی گئی اور تجارتی مقاصد کو پیشِ نظر رکھا گیا۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر ناول کے اس ایڈیشن میں ’’امرائو جان ادا‘‘ کے ابتدائی ایڈیشنوں کو پیشِ نظر رکھ کر صحتِ زبان کے ساتھ ساتھ رسوا کے نثری اسٹائل کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔