ناول ’’نشتر‘‘ کا پلاٹ سچے واقعات پر مبنی ہے جو 1199ھ مطابق 1785-84ء کے دوران میں خود صاحبِ تصنیف پر گزرے اور اس نے اپنی زبان (اس عہد کی سادہ مروجہ فارسی) میں آپ بیتی کے طور پر اس واقعے کے تقریباً چھ سال بعد قلم بند کیے۔ اصل کتاب طبع نہ ہو سکی مگر اس کا ایک قلمی نسخہ منشی سجاد حسین کسمنڈوی مرحوم کو 1894ء میں دستیاب ہوا اور اُنھوں نے سلیس اور عام فہم اُردو زبان میں اس کا ترجمہ کر دیا۔ اس ناول کی سب سے بڑی خوبی بیان کی سادگی اور صداقت ہے جو نہایت خلوص و دیانت سے آشکار کر دی ہے اور اس کی شخصیت و کردار کا خلوص جگہ جگہ نمایاں ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف نہایت شریف النفس، سادہ مزاج اور نیک دل نوجوان ہے اور اپنی فطری نادانی اور سادہ لوحی کو چھپانے پر مطلق قادر نہیں یا چھپانا نہیں چاہتا۔
اگرچہ اس تالیف کو اصطلاحاً ناول نہیں کہا جا سکتا کیونکہ پلاٹ میں جگہ جگہ جھول نظر آتا ہے اور واقعات کی ترتیب میں تناسب بھی قائم نہیں رہ سکا، لیکن سچی داستانِ محبت لگنے کی وجہ سے قاری تکنیک کی خامیوں کے باوجود مصنف کے بیان کے سوز و گداز سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے بعض اوقات اسے مثنوی زہرِ عشق کا ہم پلہ قرار دیا جاتا ہے۔