اٹھارہ سو ستاون کا عیسوی سال ہماری سیاسی و ثقافتی تاریخ میں عموماً اور جہادِ آزادی کی تاریخ میں خصوصا ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ عام ہندوستانیوں نے اس موقع پر بلاتفریق مذہب، ملت، اپنی غلامی کے خلاف شعوری یا غیرشعوری طور پر بغاوت کی شکل میں شدید احتجاج کیا۔ اس ملک گیر بغاوت کو بروئے کار لانے میں جن عناصر نے حصہ لیا تھا، ان میں ہندوستانی اخبار نویسی کی حیثیت شریکِ غالب کی تھی، جس کی عمر اس وقت تیس پینتیس سال سے زیادہ نہ تھی، لیکن ہندوستانی اخبار نویسی کے اس مختصر عہد کی تاریخ کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ابتدا ہی سے اس کا مزاج باغیانہ تھا۔ ہندوستان میں انگریزو ں کی آمد کے ساتھ ہی جدید صحافت کا فن بھی دبے پائوں داخل ہو گیا، اگرچہ انھوں نے پوری کوشش کی تھی کہ اس ملک میں صحافت کی وبا پھیلنے نہ پائے یا کم از کم دیسی باشندے اس سے محفوظ رہیں۔ لیکن یہ نہ ہو سکا اور ایسا ہونا ممکن بھی نہ تھا اور 1822ء میں ہندوستانی اخبار نویسی بھی میدان میں آ گئی۔
1857ء کے اوائل ہی سے ہندوستان کے آسمان پر بغاوت کے بادل منڈلانے لگے تھے اور اس کے ساتھ ہی ہندوستانی اخباروں نے تلخی و بے باکی کے ساتھ انگریزی حکومت پر نکتہ چینی کی رفتار بھی تیز کر دی تھی۔ اس سلسلے میں لکھنؤ اور کلکتے کے اخبارات خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ ہندوستانی اخبار نویسی کا یہ افسوسناک باب ہے کہ 1857ء کے کسی فارسی یا اُردو اخبار کی مکمل فائل کہیں بھی محفوظ نہیں۔ یہی حال دستاویزوں کا ہے۔ یہ کتاب اٹھارہ سو ستاون کے اخباروں کے چند تراشوں اور کچھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس سے جنگِ آزادی میں ان اخباروں اور دستاویزات کا کردار پتہ چلتا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ حکومتِ ہند یا تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے ادارے ان اخباروں اور دستاویزات کی طرف متوجہ ہوں۔