یہ کتاب ’’اختر حسین رائے پوری، حیات و خدمات‘‘ ڈاکٹر خالد ندیم کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ بیسویں صدی عیسوی کی ایک اہم ادبی تحریک (انجمن ترقی پسند مصنّفین) کو فکری اساس مہیا کرنے والوں میں اختر حسین کا نام سرفہرست ہے۔ وہ ذہنی طور پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے، لیکن جماعتی احکامات پر آنکھیں بند کر کے عمل پیرا ہونے کے بجائے برعظیم کے معروضی حالات کو پیشِ نظر رکھنا ضروری خیال کرتے تھے۔ اس وجہ سے وہ ترقی پسند ہوتے ہوئے بھی اس تحریک سے عملاً دور ہوتے چلے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ترقی پسندوں نے انھیں اپنا باغی اور مخالفین نے ترقی پسند قرار دیتے ہوئے اس حد تک نظرانداز کر دیا کہ اُردو ادب میں ان کی ادبی حیثیت کا بروقت اعتراف نہ ہو سکا۔ اختر حسین رائے پوری اُردو زبان و ادب کی تاریخ میں ایک درخشندہ ستارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اکسٹھ برس کے اپنے علمی و ادبی سفر میں وہ ایک صحافی، افسانہ نگار، نقاد، مترجم اور خودنوشت نگار کی حیثیت سے معروف ہوئے۔ ہندی، گجراتی، بنگالی، سنسکرت، اُردو فارسی، فرانسیسی اور انگریزی سے شناسائی کی بہ دولت انھیں اپنے ہم عصروں پر تفوق حاصل رہا۔
زیرِ نظر کتاب میں ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے حتی الوسع سمجھنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ ان کے نام غیرمطبوعہ خطوط ان کی شخصیت کی بعض ایسی پرتیں کھولتے ہیں، جن تک کسی اور ذریعے سے رسائی ممکن نہیں ہو سکتی تھی۔ اُردو اور انگریزی کے علاوہ ان کے نام عالمی مشاہیر کے ہندی زبان کے مکاتیب بھی دستیاب ہوئے، جنہیں ڈاکٹر خالد ندیم نے اُردو زبان کا روپ دے کر ’’ایسے ہوتے ہیں وہ نامے‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کر دیا ہے۔ اختر کی ابتدائی ہندی تحریریں بھی ابھی تک غیرمدوّن تھیں، مصنف نے ان سے استفادہ کرتے ہوئے ان کی تاریخی، تہذیبی، افسانوی اور تنقیدی بصیرت کا اندازہ کرنے کی سعی کی ہے۔ ساتھ ساتھ جہاں ضرورت محسوس ہوئی، اختر کی ہندی تحریریں دیوناگری رسم الخط میں پیش کی گئی ہیں۔ اختر کی انگریزی شاعری کے بارے میں محققین اور نقاد بالعموم لاعلم تھے، مقالہ نگار نے انھیں بازیافت کرنے کی کامیابی حاصل کی ہے۔ علاوہ ازیں اختر کی نامکمل تحریروں سے متعلق بھی جانکاری دی ہے۔