’’بہارستانِ ناز‘‘ اُردو کا اولین تذکرۂ شاعرات ہے جو 1864ء میں شائع ہوا۔ اس سے پہلے شاعرات کا ذکر دوسرے تذکروں میں ضمناً کیا جاتا تھا اور کوئی ایسا تذکرہ موجود نہ تھا جس میں صرف خواتین کے کمالِ فن پر اظہارِ خیال کیا گیا ہو۔ حکیم فصیح الدین رنج و طبیب خود ایک قادر الکلام شاعر اور بلند پایہ انشاپرداز تھے اور امراضِ نسواں کے ماہر بھی۔ بہ حیثیت طبیب موصوف کا حلقۂ تعارف بھی نہایت وسیع تھا۔ حکیم فصیح الدین آبائی وطن ضلع بلند شہر تھا، لیکن میرٹھ میں اُن کی ننھیال ہونے کی وجہ سے وہ میرٹھی مشہور ہیں۔ ان کا خاندان بنی اسرائیل کہلاتا تھا اور آج بھی بلند شہر میں محلہ بنی اسرائیل موجود ہے۔ افسوس ہے کہ رنج کے حالات کے قلم بند کرنے میں معاصر تذکرہ نگاروں نے بڑی کوتاہی کی ہے۔ کسی تذکرے میں چند سطور سے زیادہ نہیں ملتا۔ رنج کی اپنی تصنیفات بھی اس سلسلے میں خاموش ہیں۔
زیرِ نظر تذکرے میں شامل شاعرات کے سوانح حیات کی فراہمی اور تحقیق میں فاضل مؤلف نے اپنی براہِ راست معلومات کے علاوہ احباب کے مشوروں اور رہ نمائی سے بھی پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور کوشش کی کہ کوئی قابلِ ذکر شاعرہ شاملِ کتاب ہونے سے رہ نہ جائے۔ موصوف نے مواد کی صحت میں بھی اس قدر اہتمام برتا کہ پوری کتاب میں کم ہی مقامات ایسے ہو سکتے ہیں جہاں کلام کی گنجائش ہو۔ کلام کے انتخاب میں حکیم صاحب کی بالغ نظری اور بلند مذاقی ہر جگہ نمایاں ہے، اور اُن کے اندازِ تحریر کی شگفتگی و شوخی کتاب کو اُردو کے نثری ادب میں شہ پارے کا مقام عطا کرتی ہے۔ حکیم فصیح الدین رنج عورتوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص طور سے مائل تھے۔ ’’بہارستانِ ناز‘‘ مؤلف کی زندگی میں تین بار شائع ہوا، جس کے بعد اس کی اشاعت کی نوبت نہیں آئی۔ آخری اشاعت 1882ء میں ہوئی۔ بہارستانِ ناز کے لیے یہ تخصیص نہیں تھی کہ کون کون سی شاعرات شامل کی جائیں۔ یہ اتفاق ہے کہ شعر کہنے والیوں میں اکثر طوائفیں واقع ہوئیں، لیکن یہ آج کل کی طوائفیں نہیں ہیں، بلکہ ان کا مخصوص کلچر تھا، شرفا کا ان سے ملنا جلنا ناپسندیدہ نہیں تھا اور بڑے اصحابِ فن و کمال ان سے وابستگی کو موجبِ ننگ و عار نہیں سمجھتے تھے۔