کسی بھی زبان میں فصاحت و بلاغت کا ہنر پیدا کرنے کے لیے اس زبان میں لکھنے اور بولنے والے کے لیے بالخصوص اور سننے والے کے لیے بالعموم اس کے قواعد یعنی صرف و نحو سے آگہی ضروری ہوتی ہے۔ ادب کے طالب علم کے لیے تفہیم معانی کے لیے علمائے علم معانی نے جو اصول و قواعد متعین کیے ہیں ان کا شعور از بس ضروری ہے۔ جملے لکھنے اور پڑھ کر سمجھنے کے لیے علم البیان اور علم البدیع سے آگہی ہی قلم میں اعتماد اور لفظوں میں معنی کا رنگ بھرتی ہے۔ بحر الفصاحت اس مقصد کے حصول کے لیے اہم کتاب ہے جو مولوی نجم الغنی رام پوری کے ہنر و فن کا نتیجہ ہے۔ بحر الفصاحت سات حصوں (پانچ جلدوں) پر مشتمل قواعد و انشا پر لکھی گئی نہایت اہم اور مفصل کتاب ہے۔ جس میں علم المعانی کو مرحلہ وار صرف و نحو کے حوالے سے زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ مذکورہ کتاب کا پہلا ایڈیشن ایک جلد کی صورت میں شائع ہوا تھا جبکہ غیرمعمولی ضخامت کے پیشِ نظر اس کا دوسرا ایڈیشن پانچ جلدوں میں مجلس ترقی ادب ہی نے شائع کیا تھا۔
بحرالفصاحت کی اس دوسری جلد میں حصہ دوّم اور سوم یعنی علمِ عروض شامل کیا گیا ہے جس میں شاعری میں استعمال ہونے والی بحروں اور ان کی اقسام سے متعلق بحث کی گئی ہے اور مثالوں سے وضاحت کی گئی ہے۔