ناصر نذیر فراق اپنے زمانے کے نامور نثر نگار رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ آج کی نسل ان کے بارے میں کم ہی جانتی ہے، جس کی وجہ ان کی تصانیف کا منظر عام پر نہ آنا ہے، انھوں نے افسانے، مضامین، لوک روایات، معاشرتی خاکے اور ناول لکھے، مجلس ترقی ادب نے ان کے اس ناول کو مرتب کروا کر ادب کی شاندار خدمت کی ہے۔
یہ ناول پہلی مرتبہ 1909ء میں شائع ہوا تھا۔ ناول کی فضا اور زبان و بیان بھی اسی دور کے مطابق ہے، اندازہ ہے کہ یہ فراق کا پہلا ناول ہے۔ نامور ادیب محمد سلیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ناول کو سچا واقعہ قرار دے کر فراق نے پڑھنے والوں کو بڑے دبدھے سے دوچار کر دیا ہے ۔ تاہم اگر ناول نگار کے اس دعوے پر یقین کر لیا جائے کہ وہ سچے واقعات بیان کر رہا ہے تو طرح طرح کے سوال سر اٹھاتے ہیں اور ان کا کوئی تسلی بخش جواب ناول کے متن میں تلاش کرنا بے سود ہے۔ محترم سلیم الرحمٰن نے پیش لفظ میں ناول کا کڑا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور بہت سی ادبی مباحث کا راستہ کھول دیا ہے، بہرحال گم گشتہ ادب کی بازیابی مجلس ترقی ادب کی بہترین کاوش ہے۔