مجلس ترقی ادب لاہور کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والا ’’دیوانِ محبت خاں‘‘ پرتو روہیلہ کی فکری پرکھ اور فنِ تدوین کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نواب محبت خاں محبت (م 1809) میر و سودا کے معاصرین میں سے ہیں۔ دیوان کے مطالعے سے ان کا قادر الکلام ہونا اور عربی، فارسی اور سنسکرت کے اسرار و رموز اور الفاظ کی نشست و برخاست سے آگاہ ہونا بھی مترشح ہے۔ پرتو صاحب نے کم و بیش نصف صد صفحات پر بعنوان ’’پیش گفتار‘‘ ایک بسیط مقدمہ بھی تحریر کیا ہے جس میں اُنھوں نے صاحبِ دیوان، نواب محبت خاں محبت کے علاقے اور عہد پر سیر حاصل اظہارِ خیال کیا ہے۔ چونکہ نواب محبت ان کے اجداد میں شامل تھے اس لیے انھوں نے خاندانی پس منظر اور روہیل کھنڈ اور روہیلہ کی وجوہِ تسمیہ کا بیان بھی مفصل کیا ہے۔ مقدمے کا معتد بہ حصہ انھی نکات اور معلومات پر مشتمل ہے۔ آگے چل کر انھوں نے متوسطین اور متاخرین کے تذکروں میں نواب محبت کے ادبی مقام اور اسلوب اور شعری اوصاف کے اقتباسات اور حوالے دیئے ہیں۔
دیوان میں شامل کل تین سو پینتالیس غزلوں میں مضمون آفرینی، محبوب سے چھیڑ چھاڑ، ہجر و وصال کی کیفیات کا بیان اور اس عہد کی اُردو زبان کا چٹخارا بدرجۂ کمال موجود ہے۔ قاری کو ہر دوسرا شعر لسانی نشست و برخاست اور فنی ہنر جوئی میں موجزن محسوس ہوتا ہے۔ دیوان کے آخری حصے میں رباعیات، مخمس اور قطعات دیے گئے ہیں جن کا مطالعہ شاعر مذکور کے قادر الکلام ہونے کے احساس کو مزید تقویت دیتا ہے۔ مخطوطے میں کہیں کہیں اوزان و معانی کے بعض اسقام کو قیاسی تصحیح اور ’’کذا‘‘ کے تحت اور بعض قواعد کی اغلاط کی توضیح اور نشان دہی کے ذریعے تدوین و حواشی کے تقاضے پورے کیے گئے ہیں تاکہ دیوان کا قاری یا آنے والا محقق کسی الجھن کا شکار نہ ہو۔