یہ کتاب ہند اور یونان کے فلسفے کا ایک مجمل جائزہ ہے، جسے فقط ایک مطالعے کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے اجزائے ترکیبی تنقید و تبصرہ کی بجائے ترجمہ و تلخیص ہیں، گویا یہ ہر دو مذکورہ ممالک کے فلسفیانہ افکار و آرا کا ایسا خلاصہ ہے، جو فلسفے کے طالب علم کو بڑی بڑی ادق اور ضخیم کتب کے مطالعۂ عرق ریز سے بچا لے گا، یہی نہیں، بلکہ زندگی کے قیمتی ایام جو ان فلاسفہ کی کتب کے مطالعے میں صرف ہوتے ہیں، وہ بھی محفوظ رہیں گے اور ان سے کوئی اور مفید کام لیا جا سکے گا۔ اگر دونوں فلسفوں (فلسفۂ ہند اور فلسفۂ یونان) کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کیا جائے تو ان کے تدریجی ارتقا سے واضح ہو جائے گا کہ فلسفے نے ہر دو مذکورہ ممالک میں قریباً ایک ہی سی منازلِ فکر طے کی ہیں اور ان کی آخری منزل بھی ایک ہی ہے، جہاں پہنچ کر دونوں نے اپنا اپنا سفر ختم کر دیا ہے اور وہ منزل ہے الٰہیات، جس سے ہم یہ سمجھ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہی آخری منزل ہے اور اس سے آگے عقل اور فکرِ انسانی کی رسائی ناممکن ہے۔
اگرچہ یہ ایک مختصر کتاب ہے، مگر اپنی افادیت کے لحاظ سے بڑی بڑی ضخیم کتب پر بھاری ہے، کیوں کہ اس میں سب کچھ موجود ہے اور ’’دریا بہ حباب اندر‘‘ کے مصداق ہے۔ افکار کا تسلسل، تدریج، ارتقا، اور نظم و ترتیب اس کی افادیت کو اور بھی یقینی کر دیتے ہیں۔ اس کتاب میں اٹھارہ مضامین جمع کیے گئے ہیں ہندوستان کے مختلف فلسفوں اور فلسفیوں اور اسی طرح یونان کے مختلف فلسفوں اور فلسفیوں کے افکار کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہندوستان کے فلسفیوں میں فلسفوں اور فلسفیوں میں جین مت اور بدھ مت کے فلسفے، نیایہ، ویشسکا، سانکھیہ، یوگ، سیماسہ، ویدانت، اچاریہ، رامانوج اور مذاہبِ ہند شامل ہیں۔ جبکہ یورپ کے فلسفوں اور فلسفیوں میں سقراط، افلاطون، ارسطو اور اس کے بعد کے فلسفیوں اور افلاطونیتِ جدیدہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔