فسانۂ عجائب کو ہمارے افسانوی ادب میں خصوصی مقام حاصل ہے۔ داستان ادب کی وہ قسم ہے جو داستان اور ناول کے مابین ربط قائم کرتی ہے۔ فسانۂ عجائب لگ بھگ 175 سال پہلے لکھا گیا تھا لیکن پھر بھی نقادوں کی دلچسپی سے اس کی تعریف و توصیف کی ہے۔ داستان کی زبان متروک ہے پھر بھی قاری اسے دلچسپ محسوس کرتا ہے۔ فسانۂ عجائب نے اپنے عہد کی دیگر کتابوں پر بہت اثر ڈالا۔ رجب علی بیگ سرور نے دوستوں کی فرمائش پر فسانۂ عجائب 1824 میں وقت گزاری کے لیے سنایا۔ کچھ عرصے بعد قتل کے الزام میں جلاوطنی کے دنوں میں جب دوستوں کی یاد نے ستایا تو اسی قصے کو مرصع و مقفی عبارت میں لکھ ڈالا جو اپنی ابتدائی تخلیق کے 19 سال بعد یعنی 1843 میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔
’’فسانۂ عجائب‘‘ کا موجودہ اڈیشن قدیم متنوں کو نئے آدابِ ترتیب کے مطابق مرتّب کرنے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ طالبِ علم کچھ آسانی کے ساتھ ان کو پڑھ سکیں۔ اس ایڈیشن میں متن کی صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ، مشکل لفظوں پر حرکات، پنکچویشن (اوقاف) اور علامتوں کا استعمال بھی کیا گیا ہے جس سے لفظوں کے تلفظ کے تعین میں آسانی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اس ایڈیشن میں کئی ضمیمے بھی شامل کیے گئے ہیں جو اشخاص، مقامات، عمارتوں، الفاظ کے تلفظ و املا، ان کے طریقِ استعمال، اختلافِ نسخ جیسے مسائل کی تشریح و وضاحت کرتے ہیں۔ اس کتاب میں ایک ضخیم فرہنگ بھی شامل کی گئی ہے جس میں الفاظ کے معانی، عربی عبارتوں کا مفہوم اور فارسی اشعار و فقروں کا ترجمہ دیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔
Reviews
There are no reviews yet.