’’فسانۂ دل فریب‘‘ کی تدوین اُردو کی ادبی تاریخ میں اٹھارویں اور انیسویں صدی کے اُس دور کی بازیافت ہے جب داستان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ فسانۂ دل فریب میں زبان اور نفسِ مضمون کے اعتبار سے فسانۂ عجائب کا پر تو خاص طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے، جس میں نثر کے ڈانڈے شعر سے ملانا چاہے ہیں۔ فسانۂ دل فریب مُلکِ حلب کے ملک زادے فریدون شوکت اور فغفور چین کی بیٹی ملکہ خورشید جبیں کی محبت کی کہانی ہے جس میں کرداروں کا سراپا بیان کرنے میں بڑی ہنرمندی دکھائی گئی ہے۔ اس داستان کو دلچسپ بنانے میں طلسمانوی (Fantastic) عناصر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماورائی مخلوق انسانی روپ دھار کر یا جانور اور پرندے مختلف شکلیں اختیار کر کے انسانی اعمال پر اثرانداز ہوتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف رزم، بزم، طلسم اور عیاری کے مرقعوں سے فسانۂ دل فریب کا دامن مالامال ہے اور قاری کو بالکل بھی اُکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا بلکہ وہ لکھنؤ کے محاورے سے فرحت اور قربت محسوس کرتا ہے۔
’’فسانۂ دل فریب‘‘ کا زمانۂ تصنیف انیسویں صدی کا نصف آخر ہے جب لکھنؤ میں داستان گوئی اور داستان نویسی کے پہلو بہ پہلو شاعری کا بھی چرچا تھا۔ ’’فسانۂ دل فریب‘‘ طلسم ہوش رُبا اور اسی قبیل کی دوسری داستانوں کی طرح طویل نہیں، تاہم اس میں وہ تمام کیفیات، یعنی رزم و بزم اور سحر و ساحری موجود ہیں۔ مدت سے یہ داستان نایاب تھی۔ اب مجلسِ ترقی ادب کے زیرِ اہتمام اس کی مکرر اشاعت کے باعث انیسویں صدی کی اس یادگار تصنیف سے اہلِ علم اور داستانوی ادب سے دلچسپی رکھنے والے قارئین فیض اندوز ہوں گے۔
Reviews
There are no reviews yet.