’’فکرِ سخن‘‘ صدیق کلیم کے وقتاً فوقتاً لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے، جو ملک کے مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ یہ مضامین کسی سکیم کے تحت وجود میں نہیں آئے، لیکن ان موضوعات کا انتخاب دلالت کرتا ہے کہ ایک تو ان مضامین کی ذاتی قدر ہے اور دوسرے ان کی عصری اہمیت بھی ہے۔ کتاب کا پہلا حصہ چند ایک مصنّفین اور تصانیف سے متعلق ہے اور دوسرا ادبی مسائل سے۔ اس لیے ان دونوں حصوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ علاوہ ازیں مصنف کا ادبی نظریہ نہ صرف ان دونوں حصوں بلکہ تمام مقالوں کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے۔ مصنف کا ادبی نظریہ ادب اور فنونِ لطیفہ کے مختلف بلکہ متضاد مکاتیبِ فکر اور فن پاروں کی روشنی میں تعمیر ہوا ہے جو مصنف نے کتاب کے آخری مضمون ’’جدید ادبی تحریک‘‘ میں مکمل طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ادبی تجزیے کے لیے جدید تنقید نے مختلف طریقے اور پیمانے وضع کیے ہیں۔ ہمارے ہاں انگریزی اور امریکی تنقید کے علاوہ فرانسیسی اور روسی تنقید کے علاوہ چینی تنقید اہم ہیں۔ جدید اُردو تنقید میں ان سب کے اطلاق کی کوششیں ملتی ہیں۔ البتہ فکرِ سخن میں دو بنیادی عوامل مصنف کے پیشِ نظر رہے: ایک تجزیہ اور دوسرا ادبی ذوق۔
ادبی تجزیے کے لیے ژرف بینی اور فراست کی ضرورت ہے کہ ادب پاروں کی روح کو پا کر ان کا تنقیدی تجزیہ کیا جا سکے، جس کے لیے ضروری ہے کہ عہدِ حاضر کے تمام علمی اور فنی تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے مگر فقط انھیں اُصولوں اور کلیوں کا استعمال کیا جائے جن کا منطقی طور پر اطلاق ہوتا ہے۔ ادبی تجزیے اور ادبی ذوق کے باہمی رشتے کے مسائل اپنی جگہ مگر ان دونوں کی ہم آہنگی ہی تخلیقی تنقید کے قابل بنا سکتی ہے۔ ایک اچھا نقاد ادبی ذوق، گمبھیر علم، تجزیہ نگاری اور تخلیقی قوت جیسے اوصاف سے متصف ہوتا ہے، اس لیے نقاد کو اپنی تربیت خود کرنا پڑتی ہے۔ اچھے ادیب کے لیے اچھا نقاد ہونے کے لیے سائنسی تجزیے اور تخئیلی تخلیق کی موزوں ہم آہنگی کی صفت کا نقاد میں ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کتاب میں مصنّفین اور تصانیف کے تحت چودہ مضامین اور ادبی مسائل کے تحت پندرہ مضامین دیئے گئے ہیں۔