حیدر بخش حیدری، فورٹ ولیم کالج کے ان انشاپردازوں میں شامل تھے جو متنوع مضامین پر تصانیف و تالیفات کے اہل تھے۔ خانوادۂ تیمور کے آخری عہد کے مشہور خطیب اور مصنف حسین واعظ کاشفی نے جس کی تصنیف ’’انوار سہیلی‘‘ دُنیا کی اہم ترین کتابوں میں شامل ہے، ایک تالیف ’’روضۃ الشہدا‘‘ مرتب کی تھی؛ حیدری نے اس کا ترجمہ کیا لیکن پھر اس کی طوالت کے پیشِ نظر ’’گلِ مغفرت‘‘ کے نام سے اس کے مطالب کی تلخیص کر دی۔ جیسا کہ اس کتاب کے نام سے مترشح ہوتا ہے، مؤلف نے یہ کتاب اعتقادی جذبے کے تحت لکھی تھی اور اکثر مصنفوں کی طرح اسے اپنی اور عام پڑھنے والوں کی نجات کا ذریعہ قرار دیا تھا۔ وہ ایک خوش اعتقاد، محب اہلِ بیت بزرگ تھے۔ حیدری کو خاندانِ رسولؐ سے جو لگائو تھا، اُنھوں نے یہ کتاب اسی عقیدت کی بنا پر لکھی ہے۔ اس کتاب میں اُنھوں نے مناقب اہلِ بیت اور کوائف واقعۂ کربلا کے متعلق سولہ مجلسوں کی صورت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
حیدری نے یہ کتاب مولوی حسین علی کی فرمائش پر تالیف کی تھی اور اس کی تہہ میں خلوص و عقیدت کے جذبات کارفرما تھے۔ عقیدے کے اظہار میں آرائش و تکلف سے عموماً اجتناب برتا جاتا ہے؛ چنانچہ اس کتاب کی عبارت نہایت رواں، سلیس اور شگفتہ ہے۔ کہیں کہیں عربی اور فارسی الفاظ استعمال کرتے ہیں لیکن اکثر حامد حسن قادری کی رائے کے مطابق چھوٹے جملے، ہندی الفاظ، روزمرہ اور محاورہ اس طرح بھرتے ہیں کہ ان کی عبارت نہایت دل کش ہو جاتی ہے۔ حیدری کے اسلوب میں دبستانِ دہلی کی نثر کی سادگی کے ساتھ وہ رنگین انداز موجود ہے جو اُن دنوں شمالی ہند میں عام تھا اور جس سے غالب جیسے جدت پسند بھی اعتنا کرتے تھے۔ ’’گلِ مغفرت‘‘ میں جابجا نظم کے ٹکڑے بھی آئے ہیں جن میں سے بیشتر نوحوں کا انداز رکھتے ہیں اور ہیئت کے لحاظ سے مستزاد قرار پاتے ہیں۔ کتاب شروع میں ڈاکٹر ناظر حسن زیدی کا ایک فاضلانہ مقدمہ شامل ہیں جس میں اُنھوں نے بہت دقتِ نظر سے کام لے کر حیدری کے اسلوب کا تجزیہ کیا ہے۔