داستانی قصے اور اساطیری روایتیں دراصل ہند ایرانی تہذیبی روایت کا عطرِ مجموعہ ہیں۔ گلِ بکاؤلی کا قصہ اصلاً ہندوستانی ہے، مگر اس میں مختلف کہانیوں کے عناصر ملتے ہیں۔ یعنی اس چھوٹی سی داستان میں ہند ایرانی مشترکہ تہذیبی و مذہبی روایتوں کے عکس جگہ جگہ ملتے ہیں۔ گل کرسٹ کی فرمائش پر منشی نہال چند لاہوری نے اس فارسی قصے کا اُردو نثر میں 1803ء میں ترجمہ کیا۔ پھر 1844ء میں پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی نے اُسے نظم کیا۔ مثنوی حقیقت میں ایک سرگذشت یا بیانِ ماجرا ہے، اس لیے چاہیے کہ اس کا بیان نہایت سلیس گفتگو میں ہو۔ یہ مثنوی پہلی بار 1844ء میں لکھنؤ کے مطبعِ حسنی میر حسن رضوی میں چھپی تھی۔
مثنوی ’’گلزار نسیم‘‘ پنڈت دیا شنکر نسیم کی وہ مثنوی ہے جس نے انہیں حیاتِ جاوید عطا کی اور یہی وہ مثنوی ہے جسے لکھنو کے دبستانِ شاعری کی پہلی طویل نظم کا شرف حاصل ہے۔ مثنوی ’’گلزار نسیم‘‘ پنڈت دیا شنکر نسیم کی لکھی ہوئی ایک عشقیہ مثنوی ہے جو ’’قصۂ گل بکاؤلی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ پنڈت دیا شنکر نسیمؔ 1811ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق پنڈتوں کے معزز اور تعلیم یافتہ خاندان سے تھا اس لیے ان کو بھی ادبیات سے بے حد دلچسپی تھی۔ گلزارِ نسیم میں تشبیہ اور استعار ات کا خوبصورت استعمال ہوا ہے، مثنوی کے پہلے شعر سے لے کر آخری شعر تک تواتر کے ساتھ یہ اندازِ بیان برقرار رہتا ہے اور اس طرح یہ مثنوی ’’گلزارِ نسیم‘‘ لکھنوی تہذیب کی ترجمان بن جاتی ہے۔ ’’گلزار نسیم‘‘ میں نوابین اودھ کے عہد کی تہذیب نظر آتی ہے۔ ’’گلزار نسیم‘‘ میں پُرکاری کا جادو ہے، گلزار نسیم کی ایک خصوصیت اس کے پلا ٹ کی پیچیدگی ہے۔ یہ صرف تاج الملوک اور بکاولی یا پھر صرف ایک پھول حاصل کرنے کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس میں کئی کہانیاں گُتھ گئی ہیں۔ اس نسخہ کو رشید حسن خان نے مرتب کیا ہے۔