یہ کتاب دراصل ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کا ڈاکٹر وحید قریشی کی زیرِنگرانی اپنے دادا حافظ محمود خان شیرانی کی علمی و ادبی خدمات پر 1987ء میں لکھا گیا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ ان کا یہ مقالہ ایک تحقیقی شاہکار ہے اور تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک معیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ حافظ محمود خان شیرانی ایسی نادر الوجود اور عظیم شخصیات میں سے ایک دُرِّنایاب حافظ محمود خاں شیرانی کی شخصیت ہے جنھیں اُردو مدرسۃ التحقیق کا معلم اوّل تسلیم کیا جاتا ہے۔ شیرانی کی ادبی تحقیق و تدوین کا رتبہ دنیائے ادب میں نہایت بلند ہے۔ انہوں نے بہت سے غلط نظریات اور مسخ شدہ تاریخی حقائق کی درستگی کا فریضہ کمال ذمہ داری سے انجام دیا ہے۔ شیرانی صاحب نے تحقیقات کی ایک ایسی روایت قائم کی جس کی بنیاد نئے ماخذ کی دریافت پر ہے۔ چنانچہ انہوں نے سینکڑوں نئے ماخذ کی روشنی میں نئے نتائج نکالے ہیں۔ انہوں نے کئی کتابوں کے علاوہ پچاسوں تحقیقی مقالات لکھے ہیں۔
مصنف ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی عرصہ دراز سے اپنے دادا حافظ محمود خان شیرانی کے مقالات، مکاتیب اور دیگر رشحاتِ قلم جمع کرنے کا کام کر رہے تھے جو کہ مختلف علمی و ادبی رسائل میں بکھرے ہوئے تھے۔ مقالاتِ حافظ محمود شیرانی کی پہلی جلد میں مظہر شیرانی نے محمود شیرانی کے سوانح حیات پر ایک طویل مضمون لکھا، جسے پڑھ کر بنارس ہندو یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اُردو ڈاکٹر حکیم چند نیئر نے انھیں محمود شیرانی پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کی دعوت دی۔ لیکن بوجوہ دیگر اس وقت وہ یہ کام شروع نہ کر سکے۔ بعد ازاں ڈاکٹر وحید قریشی کے زیرِ نگرانی پنجاب یونیورسٹی سے اس کام کا آغاز کر دیا۔ مقالے کی ضخامت کے پیشِ نظر اسے دو جلدوں میں شائع کیا گیا۔ یہ کتاب اس مقالے کی جلد اوّل ہے۔ جلد اوّل میں پانچ ابواب شامل ہیں، جن کے عنوان یہ ہیں: (۱) سوانح و سیرت، (۲) شیرانی بطور ماہرِ لسانیات، (۳) شیرانی کا تحقیقی طریقِ کار، (۴) شیرانی کے تحقیقی کارنامے، اور (۵) شیرانی اور تدوینِ متن۔