حالی جدید اردو ادب بالخصوص جدید اردو شاعری کے معمار ہیں۔ انھوں نے نثر اور نظم دونوں پر غیر معمولی اثرات چھوڑے ہیں۔ تحریکِ علی گڑھ کے خیالات و رجحانات کو پھیلانے اور استحکام بخشنے میں موصوف نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ نثر اور نظم میں ان کی ہر تصنیف جدید اردو ادب کے ارتقا میں اہمیت کی حامل ہے۔ حالی کی شاعری جدید انداز اور سادگی و پرکاری، نئے فطری اور اصلاحی موضوعات کے باعث اہم ہے ہی لیکن ان کی نثری تصانیف جو تنقید، سوانح، اصلاحی موضوعات پر مبنی اہمیت کی حامل ہیں۔ خاص طور پر حالی کی تنقیدی تصانیف ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘، ’’حیات سعدی‘‘، ’’یادگار غالب‘‘ اور ’’حیات جاوید‘‘ اہمیت کی حامل ہیں جو حالی کی نثر نگاری کی عمدہ مثال ہیں۔
زیر نظر تصنیف ’’حالی کی اردو نثر نگاری‘‘ حالی کی نثری تصانیف کا جائزہ ہے۔ یہ کتاب دراصل ڈاکٹر عبدالقیوم کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی زیرِنگرانی لکھا گیا۔ یہ مقالہ 1960ء میں مکمل ہوا تھا۔ اس کتاب کو سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب میں انیسویں صدی کے سیاسی و سماجی حالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں حالی کی ابتدائی نثر پر تبصرہ ہے جو کہ حالی کی پہلی منزل ہے، یہ حالی کے ذہنی ارتقا کے مطالعے کے لیے ناگزیر ہیں۔ تیسرے باب میں حالی کی نئی روش کا ذکر ہے جس میں حالی کی تحریر کردہ سوانح عمریوں کا جائزہ لیا گیا ہے کیونکہ حالی نے فنِ سوانح میں اجتہاد کیا ہے۔ چوتھا باب میں حالی کے مابعد سوانحی ادب کا ذکر کیا گیا ہے، جس کا مقصد ہم عصروں اور آنے والی نسل پر حالی کے اثرات دکھانا مقصود ہے۔ پانچواں باب حالی کے تنقیدی نظریات و خیالات کا جائزہ پر مبنی ہے، ان نظریات کا جائزہ ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ کی روشنی میں لیا گیا ہے۔ چھٹے باب میں حالی کی خطوط نگاری اور مقالہ نگاری کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جبکہ ساتواں باب حالی کے اسلوب تحریر کے جائزے پر مشتمل ہے تاکہ واضح ہو سکے کہ حالی بہ حیثیت صاحبِ طرز ادیب کیا حیثیت رکھتے تھے۔ اس طرح کتاب ہذا حالی کی نثر نگاری کا مکمل جائزہ ہے جس سے حالی کی نثر نگاری کی خصوصیات واضح ہوتی ہیں۔