پروفیسر محمد فرمان کی یہ کتاب مجدد الف ثانی کے مکتوبات کی روشنی میں حضرت مجدد الف ثانی (ابوالبرکات بدر الدین شیخ احمد نقشبندی سرہندی) کی سوانح حیات پر مشتمل ہے۔ پروفیسر محمد فرمان کو تصوف سے فطری مناسبت اور تعلق تھا اور مجدد الف ثانی سے گہری محبت اور عقیدت۔ اور یہ محبت حضرت مجدد کی تعلیمات سے شناسائی میں اضافے کے ساتھ ساتھ زیادہ گہری، اور مستحکم سے مستحکم ہوتی چلی گئی۔ البتہ اس عقیدت و محبت کے سوا مجدد الف ثانی پر اس تحقیقی کتاب کا محرک ان کا ایک خواب بنا جس میں انہیں ایک بزرگ نے مجدد الف ثانی کے مکتوبات کی روشنی میں جناب مجدد کی سوانح عمری مرتب کرنے کا کہا۔ اگرچہ مصنف کو مجدد الف ثانی سے گہری عقیدت و نسبت تھی، اس کے باوجود اس کتاب میں اس اندھا دھند عقیدت سے کام نہیں لیا جو اپنے محبوب ہیرو کے محاسن کو بڑھا چڑھا کر بیان کرکے ظاہر کرتی ہے اور خامی کی حامل حیثیتوں کو نظرانداز کر دیتی ہے۔ بلکہ جناب مجدد کی مذہبی خدمات کو حتی الامکان صحیح رنگ میں پیش کیا گیا ہے اور کسی ایسے جدید تنقیدی نقطۂ نظر کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا جس کی رو سے وہ اس احترام یا عظمت کے حق دار نہ ہوتے ہوں جو اُنھیں ان کے عہد میں یا موجودہ بدلے ہوئے حالات سے قبل حاصل تھی۔ حضرت مجدد الف ثانی کی ردّ و بدعت، ترویجِ شریعت اور اصلاحِ تصوف کے لیے کوششیں، اور ان میں کامیابی اور کیا وہ واقعی الف ثانی کے مجدد تھے، ان سوالوں کے تسلی بخش سوالات کے جوابات دینے کی اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے۔
مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ؒ (1564ء۔1625ء) امت ِ مسلمہ کےاُن علماء وشیوخ میں سے تھے جن کی دینی وملی خدمات کی وجہ سے ہندوستان میں دینِ اسلام کو حیاتِ نو ملی اور ان کی تعلیمات و جدو جہد نے اسلامی نشاۃ ثانیہ میں اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ ان کا عہد سولہویں صدی کی آخری ربع سے شروع ہو کر سترہویں صدی عیسوی کے پہلے ربع میں ختم ہوگیا تھا مگر ان کی تعلیمات وفیضان کے اثرات اب تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اس کتاب میں جس تصوف کی ترجمانی کی گئی ہے، وہ دل کے سکون اور شرع نبی کریمؐ پر صحت و استقامت کے ساتھ گامزن ہونے کے لیے ایک ایسا نسخۂ کیمیا ہے جسے صوفیائے کرام نے آزمایا ہے اور سودمند معلوم ہوا ہے اور جس میں راہبانہ سکون پرستی نہیں ہے۔