بنجمن شُلزے کی تالیف کردہ یہ کتاب لسانیات کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے یکساں مفید ہے۔ کئی برس پہلے یہ کتاب مجلس ترقی ادب ہی کے زیرِاہتمام شائع ہوئی تھی۔ پیشِ نظر اس کا دوسرا ایڈیشن ہے جو سفید کاغذ پر شائع کیا گیا ہے۔ اسے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے مرتب کیا ہے۔ انھوں نے مفصل مقدمہ بھی تحریر کیا ہے۔ آغاز میں مرتب نے ایک دلچسپ بات لکھی ہے کہ لغات اور قواعد کی تشکیل میں زیادہ تر خدمات اہلِ زبان کے برعکس ان لوگوں نے انجام دیں جو اہلِ زبان نہیں تھے۔ اُنھوں نے مقدمہ مذکور میں دُنیا کی معلوم قدیم زبانوں، سنسکرت، لاطینی، عبرانی کی تشکیل و تہذیب کےاصول و قواعد اور ماہرینِ لسانی کے کام کا جائزہ لیا ہے۔ اُردو زبان کی تاریخ، خاص طور پر برعظیم میںاُردو زبان کے لیے انگریزوں اور یورپ کی دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ لسانیات کی کاوشوں اور ان کے محرکات و مقاصد کا بھی مفصل ذکر کیا ہے۔ بطورِ خاص فورٹ ولیم کالج اور مستشرقین کی قواعد زبان کے ضمن میں کی گئی کوششوں کا بہ ترتیبِ زمانی جائزہ لیا ہے۔
لسانیات کے طلبہ کے لیے مقدمۂ کتاب کا مطالعہ ان کے مخزنِ علمی میں گرانقدر اضافے کا ذریعہ ہے کیونکہ مقدمے میں قواعدِ صرف و نحو کے ضمن میں کی گئی مساعی اور تصانیف و تالیف کا بالصراحت اور مرحلہ وار تذکرہ کیا گیا ہے۔ مذکورہ مقدمہ اڑتیس صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب میں حروف، اسم، ضمائر اور فعل کے لیے الگ الگ باب قائم کیے گئے ہیں۔ باب اوّل، قسمت اوّل میں مصنف کا دیباچہ جبکہ قسمت دوم، سوم میں حروفِ تہجی، حروف اور ہندسوں اور رسم الخط کا بیان ہے۔ اس کے بعد قسمت چہارم و دیگر ابواب میں اُردو حروف کی اصوات انگریزی حروف کی مدد سے متعین کرنے کا بیان ہے۔ کتاب کا یہ حصہ ایک سو چونسٹھ صفحات کو محیط ہے۔ جبکہ کتاب کی دوسری (بائیں) جانب، اُردو بطور ثانوی زبان سیکھنے والوں کی رہنمائی کے لیے انگریزی پیرایۂ اظہار اختیار کیا گیا ہے۔