مولوی نذیر احمد کا شمار اردو کے اولین ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کا پانچواں ناول ’’ابن الوقت‘‘ کے نام سے 1888ء میں شائع ہوا جسے اردو کا پہلا ناول کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کئی ناول لکھے جن کو اس زمانہ میں بہت ہی زیادہ مقبولیت ملی بلکہ نصابی کتب میں بھی داخل ہوئے۔ اب بھی ان کے دیگر کئی ناول ایم اے کے کورس میں داخل ہیں۔ ان کے دیگر ناول کئی خصوصیات کے حامل ہیں لیکن ’’ابن الوقت‘‘ اردو کا پہلا ایسا ناول ہے جس میں اپنے دور کے سماجی اور سیاسی مسائل کو بھرپور طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ اس ناول میں دو اہم کردار ہیں ایک ابن الوقت جو ناول کا ہیرو ہے اور دوسرا حجۃ الاسلام۔ ناول کا ہیرو جدید تہذیبی قدروں کو پیش کرتا ہے اور حجۃ الاسلام مشرقی تہذیب کی حمایت کرتا ہے۔
ان کا یہ ناول اس دور کے تین نظریات کے حامل مشرقیت، مغربیت اور بین بین کی نمائندگی کرتا ہے۔ سرسید، شبلی حالی و نذیر احمد بین بین کے قائل تھے جو چیزیں جس میں اچھی ہیں اس کو اپنایا جائے اور بے جا رسومات سے دستبردار ہو جایا جائے۔ اس ناول میں اسی کشمکش کو پیش کیا گیا ہے۔ ان کے دیگر ناولوں کی طرح اس ناول کے کردار بھی اتنے سادے اور واضح ہیں، مکالمے بالکل آسان ہیں، قاری کے لیے کچھ بھی مخفی نہیں رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر نذیر احمد کے سارے ناول اصلاحی ہیں جس میں قوم کی اصلاح مقصود ہوتی ہے۔ اس ناول میں وہ داستان پیش کی گئی، جو اُس زمانے میں گھر گھر کی کہانی تھی۔ ڈپٹی نذیر احمد کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اُن تمام قصّوں میں ہماری معاشرتی زندگی کی بالکل سچّی تصویر کشی کی ہے، نہ صرف اس دور کے مخصوص معاشرتی و تہذیبی مسائل کا تجزیہ کیا ہے بلکہ ان کے حل کی جانب اشارے بھی کیے ہیں۔