پروفیسر سی اے قادر پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فلسفہ کے صدر اور نامور استاد تھے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ’’اخلاقیات‘‘ انھوں نے بی۔اے اخلاقیات کے نصاب کو سامنے رکھ کر لکھی تھی جسے 1961ء میں پہلی بار مجلس ترقی ادب لاہور نے شائع کیا تھا۔ مصنف کے بقول چونکہ اس نصاب میں میکنزی اور للی کی کتابیں شامل تھیں، اس لیے نہ صرف ان کتابوں سے استفادہ کیا گیا بلکہ دوسرے اخلاقی مفکرین کے خیالات بھی جابجا پیش کیے گئے ہیں۔ چونکہ دوسرے علوم کی طرح اخلاقیات میں بھی منطق، اثباتیت، وجودیت اور مادی جدلیات وغیرہ کے طور پر کئی اعتبار سے نمایاں انقلاب آ چکا ہے اس لیے کوشش کی گئی کہ کتاب میں جدید نظریات کا تعارف کسی قدر تفصیل سے کرایا جائے اور جو تبدیلیاں اخلاقی زاویوں میں پیدا ہو چکی ہیں، انھیں حوالۂ قلم کیا جائے۔ کتاب بیس ابواب پر محیط ہے۔ اخلاقیات کے نامور مفکرین کے خیالات کو اُردو زبان میں پیش کرنے کی یہ اوّلین کوشش ہے۔ انگریزی کتابوں کے تراجم تو اُردو میں موجود ہیں لیکن اب تک کوئی ایسی کتاب موجود نہ تھی جس میں اخلاق کو نئے نظریات کے تحت خود اُردو زبان میں پیش کیا گیا ہو۔
اس کتاب میں اخلاقیات کا براہِ راست تعلق نفسیات، عمرانیات، منطق، جمالیات اور سیاسیات سے جوڑا گیا ہے اور پھر ان کے تناظر میں اخلاقی فعل کا مقصد، محرک، جبر و قدر، تقدیر، اختیار ذاتی کے زیرِ اثر انسانی کردار کی تشکیل کے نظریات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ فرد اور جماعت کی تشکیل میں قانونی ضابطے، خیر و شر، جزا و سزا کا عمل، احترام اور فضلیت کے تصورات کی اہمیت اُجاگر کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے ایک خیر اور صالح معاشرہ اور فرد کی امکانی دریافت کے بارے میں دلائل دیے گئے ہیں۔ اس کتاب کا اہم حصہ ’’جدید نظریات‘‘ کا احاطہ کرتا ہے کہ جب سورن کیرکیگارڈ اور یاں پال سارترے کے نظریات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے ان مسائل کی نشان دہی کی گئی کہ جب دونوں وجودیت پرست ہوتے ہوئے بھی فرد اور معاشرے کے باہمی تعلق کو سمجھنے میں فکری سطح پر ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں۔ آسمانی اور زمینی ضابطوں سے جنم لینے والی انسانی اخلاقیات کے متناقضات کو نہایت سہولت اور عام فہم انداز میں پیش کر کے سی اے قادر نے بنی نوع انسان کے صدیوں کے سفر کو چند سو صفحات میں سمیٹ دیا ہے۔