دنیا کی قدیم بلند پایہ اور ہمیشہ زندہ رہنے والی کتابیں جنھوں نے عالمگیر شہرت حاصل کی ان میں ایک ’’اِخوانُ الصفا‘‘ بھی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ مغرب اور مشرق کی بیشتر زبانوں میں ہوچکا ہے۔ اردو میں اس کتاب کے ایک حصے کا ترجمہ مولوی شیخ اکرام علی نے کیا ہے جو 1810ء میں ہندوستان پریس سے شائع ہوا ۔ پاکستان میں اس کا پہلا ایڈیشن جو ڈاکٹر احراز نقوی نے مرتب کیا ہے مجلس ترقی ادب لاہور سے 1966ء میں شائع ہوا۔ یہ کتاب جو عربی میں ہے کس نے لکھی اور کب شائع ہوئی اس کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تیسری صدی ہجری کے بعد لکھی گئی، اس کی نوعیت ایک داستان کی سی ہے۔ ڈاکٹر احراز نقوی لکھتے ہیں۔ ’’قصے کا مرکزی خیال فقط ثنا ہے کہ انسان ہر ذی روح سے اشرف اور افضل ہے۔ اس خیال کو مصنف ایک قصے کی شکل میں کرداروں کی مدد سے پلاٹ کے روپ میں پیش کرتا ہے۔ قصہ تو بے حد مختصر ہے مگر حکایت بڑی طوفانی ہے۔‘‘
ڈاکٹر احراز نقوی لکھتے ہیں کہ جہاں یہ کتاب اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ایک لاجواب تصنیف ہے اس کا اردو ترجمہ بھی باکمال ہے۔ کتاب کے مولف کی طرح مولوی شیخ اکرام علی بھی بڑے عالم فاضل تھے وہ سیتا پور میں پیدا ہوئے جو علم و ادب کا گھر تھا۔ انھوں نے ترجمے کے فن میں حیرت انگیز قدرت دکھائی کہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’اِخوانُ الصفا‘‘ کی تصنیف خود مولوی اکرام علی کے علم و فن کا ایک شاہکار ہے۔ مولوی شیخ اکرام علی فورٹ ولیم کالج کے آخری دور میں اس کے شعبہ تصنیف و تالیف سے منسلک ہوئے۔ جان ولیم ٹیلر نے ’’اِخوانُ الصفا‘‘ کے اردو میں ترجمہ کرنے کا کام انہیں دیا۔ ان کا ترجمہ خاصا مقبول ہوا اور باقاعدہ کالج کے نصاب تعلیم میں شامل کرلیا گیا۔ ’’اِخوانُ الصفا‘‘ سے ایک پرچہ امتحان کے لیے باقاعدہ تیار کیا جاتا تھا اور طلبہ کے لیے اس پرچے میں کامیاب ہونا لازمی شرط تھی۔ اس کے علاوہ لندن میں ہندوستانی زبان سیکھنے کے لیے جو نصاب تیار کیا گیا تھا اس میں بھی اس کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ پھر جب ایسٹ انڈیا کمپنی ختم ہوگئی تو ’’اِخوانُ الصفا‘‘ کو انڈین سول سروس کے نصاب میں شامل کرلیاگیا۔