ابو الفیض فیضی کا شمار برعظیم کے اُن معدودے چند اہلِ قلم میں ہوتا ہے جن کے کمالِ فن کا اعتراف اہلِ ایران نے بھی کیا ہے۔ وہ سلاطینِ تیموریہ کے اُن چار عظیم المرتبت شعرا میں سے ہیں جنھیں ملک الشعرائی کا بلند منصب عطا ہوا۔ بلاخمین نے کہا ہے کہ فیضی ہندوستان کے فارسی شعرا میں امیر خسرو کے بعد سب سے بڑا شاعر تھا۔ قریب قریب ہر تذکرہ نگار نے فیضی کے کمالات کو سراہا ہے۔ بہت سے شعرا نے بھی اپنے کلام میں فیضی کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ فیضی کی ولادت 16؍ دسمبر 1547ء کو آگرے کے موضع چار باغ میں ہوئی۔ انتقال 1595ء کو لاہور میں ہوا۔
’’انشائے فیضی‘‘ کا متن ’’لطیفۂ ماضی‘‘ سے ماخوذ ہے۔ یہ متن ’’لطیفۂ فیضی‘‘ کے پہلے پانچ ابواب یا لطائف پر مشتمل ہے۔ یہ فیضی کے اُن مکاتیب (خانگی و سرکاری) کا مجموعہ ہے جو اس نے اکبر بادشاہ، اس کے امرا اور اپنے احباب کو لکھے۔ یہ کتاب فیضی کے بھانجے نورالدین محمد عبداللہ نے فیضی کی وفات کے اکتیس سال بعد 1035ھ میں کچھ مزید تحریریں شامل کر کے تالیف کی اور اس کا تاریخی نام ’’لطیفۂ فیضی‘‘ رکھا۔ ’’انشائے فیضی‘‘ کی ترتیب کا کام اس لحاظ سے دقت طلب تھا کہ پاکستان میں کہیں بھی ’’لطیفۂ فیضی‘‘ کا کوئی قابلِ اعتماد نسخہ موجود نہیں تھا۔ چنانچہ مرتب نے پاکستان کے علاوہ دہلی، لکھنؤ رام پور اور علی گڑھ وغیرہ کے کتب خانوں تک رسائی حاصل کر کے وہاں کے نسخوں سے ایک منقّح متن تیار کیا۔ اُن تمام نسخوں کی تفصیل جن سے مرتّب نے استفادہ کیا ہے، مقدمے میں موجود ہیں۔