تنقیدِ اقبال کا بہت بڑا حصہ قدرتاً اقبال کے پیغام کے فلسفیانہ مطالب کی تشریح میں صرف ہوا ہے، مگر اس دوسرے سوال پر نسبتاً کم غور کیا گیا ہے کہ اقبال کی خالص ادبی حیثیت کیا تھی؟ اور کیا اقبال نے شعر کو بطورِ فن کسی نئے سانچے میں ڈھالا؟ اقبال کی فکری عظمت کا جائزہ لینے کے علاوہ نقاد کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ شاعری کی دُنیا میں بطور ایک فن کار کے، اقبال کا مقام کیا ہے؟ اگر اقبال ایک پیغامی شاعر ہے (جو وہ یقیناً ہے) تو اس کی پیغامی حیثیت کے علاوہ اُس کے فنی کمال پر غور کرنا بھی متوازن تنقید کے لیے بداہتاً لازم ہو جاتا ہے۔
اقبال پر گزشتہ تیس چالیس برسوں میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا مجموعی تاثر بالواسطہ طور پر یہ بنتا ہے کہ اقبال تو مفکر تھے، شاعر نہیں تھے۔ حالانکہ کسی کا شاعر ہونا باعثِ ہتک نہیں ہوتا۔ فلسفی کے فکر اور شاعر کے فکر میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ فلسفی دماغ کو اپیل کرتا ہے اور شاعر دل کو۔ مگر ستم یہ ہے کہ کئی لوگ جب اقبال کے فکر کا جائزہ لینے بیٹھتے ہیں تو اس فکر کے شعری حسن سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اقبال صرف مفکر ہوتے تو انھیں بحر و وزن، ردیف و قافیہ اور صوت و آہنگ کے جھمیلوں میں پڑنے کی کیا ضرورت تھی، اُنھوں نے اپنے نظامِ فکر کے لیے صرف صنفِ نثر کیوں اختیار نہ کی؟ اقبال یقیناً ایک ایسے شاعر ہیں جن کے ہاں قطعی طور پر ایک واضح نظامِ فکر موجود ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے معروف اہلِ علم اور اہلِ فن حضرات کے ان مضامین کا انتخاب مرتب کیا ہے جو اقبال کی شاعری اور اس کے عظیم فن کے دوسرے متعلقہ رموز و امور کے بارے میں ہیں۔ اقبال کو سمجھنے سمجھانے کا بہترین اور موثر ترین طریقہ ان کے فن کی نزاکتوں یا باریکیوں کا مطالعہ ہے اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کے فن پر مضامین کا یہ فاضلانہ انتخاب اقبالیات میں ایک اہم مقام حاصل کرے گا۔ کتاب کے آخر میں دو چیزیں بطور ضمیہ دی گئی ہیں، اوّل علامہ اقبال کا حیات نامہ، دوم اقبال کی شعر گوئی۔ ان سے بیک نظر علامہ کے مشاغلِ حیات، رفتارِ شعر گوئی اور نزولِ شعر کی کیفیات کا اندازہ ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ کتاب کے آخر میں کئی اشاریے بھی ہیں جو قارئین کے لیے کئی طرح سے مفید ہوں گے۔