کلاسیکی طبیعیات کا نقطۂ عروج کائنات کا میکانکی تصور تھا۔ اس تصور میں کائنات کو مادی خیال کیا جاتا تھا جس میں توانائی مادی ذروں کی حرکت اور ان کے مختلف حالات و کوائف کی ذمہ دار ہے۔ مادہ اور توانائی دونوں ہی مقدار میں مستقل رہتے ہیں؛ ان کی نیرنگیوں کا ظہور زمان و مکان میں ہوتا ہے؛ مکان سہ ابعادی ہے اور وقت کا دھارا سب کے لیے یکساں طور پر بہے جا رہا ہے۔ دونوں ہی مطلق ہیں۔ واقعات تسلسل سے رونما ہوتے ہیں اور ان میں علت و معلوم کا تعلق پایا جاتا ہے۔ کائنات کے بطن سے جبریت کا نشان ملتا ہے۔ لیکن ابھی انیسویں صدی نے کروٹ نہ لی تھی کہ میکانکی کائنات میں کامیاں نظر آنے لگیں۔ ایٹم کو ناقابلِ تقسیم خیال کیا جاتا تھا، لیکن وہ تقسیم ہونے لگا۔ تابکار ذروں کی شکست و ریخت کا مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ شکست و ریخت ایسا معلول ہے جس کی کوئی میکانکی وجہ نہیں۔ میکس پلانک کے کوانٹم نظریے سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ کائنات میں تبدیلیاں زمان و مکان میں مسلسل حرکت کا نتیجہ نہیں بلکہ غیرمسلسل ہیں۔ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت نے زمان و مکان، حرکت و سکون اور کمیت کی مطلقیت کا خاتمہ کر دیا۔ 1927ء میں ہائزن برگ نے اپنا مشہور ’’اُصولِ عدم تعین‘‘، کہ ہم بہ یک وقت کسی ذرے کا صحیح مقام اور رفتار معلوم ہی نہیں کر سکتے، پیش کر کے دُنیائے سائنس کو عجز سکھا دیا۔ علمائے طبیعیات اب اعتراف کرتے ہیں کہ انسان کے حواس، اس کے آلے اور اوزار، اس کا علم، اس کی سوجھ بوجھ سب محدود ہیں اور وہ حقیقت کا کماحقہٗ پتا نہیں لگا سکتا۔
زیرِ نظر کتاب میں ’’طبیعیات‘‘ میں اسی انقلاب کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف پروفیسر محمود انور نے تاریخِ عالم کے مختلف ادوار میں علمِ طبیعیات کے ارتقا پر تبصرہ کرتے ہوئے مادے، توانائی، حرارت، آواز، نور، اور برق و مقناطیس کے مسائل اور نظریۂ اضافیت، نظریہ مقادیر عنصری اور اُصولِ عدم تعین پر دلچسپ اور عام فہم انداز میں بحث کی ہے جو عام قاری آسانی سے سمجھ سکے گا۔ پروفیسر محمود انور گنتی کے اُن سائنس دانوں میں سے تھے جو علمی موضوعات دل نشین، شگفتہ اور رواں زبان میں بیان کرنے پر پوری قدرت رکھتے تھے۔ جدید طبیعیات کا تعارف اُنھوں نے بہت محنت سے سلیس زبان میں مجلس کے لیے تحریر فرمائی تھی۔