’’بالِ جبریل‘‘ کا یہ منظوم پنجابی ترجمہ ’’جبریل اُڈاری‘‘ جسے اسیر عابد نے کیا ہے، پہلے پہل اقبال اکیڈمی پاکستان نے 1995ء میں شائع کیا تھا۔ کتاب کے مترجم اس سے پہلے دیوانِ غالب کا پنجابی میں منظوم ترجمہ کر چکے تھے، جسے مجلس ترقی ادب لاہور نے شایانِ شان طریقے سے شائع کیا تھا۔ لیکن اقبال اکیڈمی نے مترجم کی خواہش کے مطابق اسے جلی خط میں شائع نہ کیا۔ بعد ازاں مترجم نے اقبال اکیڈمی سے اس ترجمے کو مجلس ترقی ادب کی طرف سے شائع کرنے کی اجازت حاصل کر لی۔ لہٰذا کتاب کے اس ایڈیشن میں ’’بال جبریل‘‘ اور اس کا پنجابی ترجمہ ’’جبریل اُڈاری‘‘ مترجم مرحوم کے حسبِ خواہش جلی الفاظ میں آمنے سامنے شائع کیا گیا، جس میں پنجابی حصہ تو ٹائپ میں ہے لیکن متن کے لیے ’’بالِ جبریل‘‘ کا وہ ایڈیشن بعینہٖ استعمال کیا گیا جو چوہدری محمد حسین کی زیرِنگرانی 1935ء سے 1947ء تک سات بار الگ کتاب کی صورت میں چھپ چکا تھا اور جسے عبدالمجید پروین رقم نے کتابت کیا تھا۔
اس ترجمے میں شاعری کی ہر صنف کو اسیر عابد نے اپنی فنی چابک دستی سے ترجمے کے لیے ہموار کر لیا ہے۔ ترجمہ کرنے میں شعری حرارت کو ترجمے میں منتقل کرنا، مترادفات کی تلاش، متبادل محاورات اور موزوں بحر کے انتخاب میں کوئی مترجم اس کا حریف نہیں۔ اس کا سب سے بڑا وصف ترجمے کا تشریحی اور وضاحتی انداز ہے جس سے قاری فوراً مفہوم سے آشنا ہو جاتا ہے۔ یہی وہ وصف ہے جو ترجمے کو تخلیقی مرتبے پر فائز کر دیتا ہے۔ اس کتاب کے آخر میں احمد رضا کا مرتب کردہ کشف الادبیات کے نام سے ایک اشاریہ بھی شامل ہے جس سے ’’بالِ جبریل‘‘ کا کوئی بھی شعر بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ہر مصرع کے پہلے دو لفظ (بہ ترتیبِ حروفِ تہجی) اس اشاریے میں شامل کیے گئے ہیں اور ان کے سامنے متعلقہ صفحات ہیں۔