بشیر رزمی غزل کے عمدہ شاعر اور علمِ عروض کے ماہر ہیں۔ اُردو اوزان سے دلچسپی رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ اس کا عروضی نظام بنیادی طور پر عربی سے ماخوذ ہے اور فارسی شاعری کے توسط سے اختیار کیا گیا ہے۔ البتہ اس میں ہندی یا سنسکرت کا پرتو بھی موجود ہے۔ بشیر رزمی نے اُردو کی مروجہ بحور میں دو چار نہیں درجنوں تجربات کیے ہیں۔ زیرِ نظر مجموعے ’’کائناتِ غزل‘‘ میں بشیر رزمی نے بتیس بحور کے دو سو چونتیس اوزان میں غزل کہہ کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے اور متقارب و متدارک کے ارکان ’’فعولن‘‘ اور ’’فاعلن‘‘ کے امتزاج سے دو نئے آہنگوں کا استنباط بھی کیا ہے اور انہیں بحرِ رزمی اور بحر مقلوب الرزمی کا نام دیا ہے۔ جناب رزمی نے فارسی اور اُردو کے معروف اور متداول اوزان کے علاوہ خاص عربی اور کہیں کہیں پنجابی کے آہنگ سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ٹھیٹھ عربی بحروں میں اُنھوں نے دو تجربے بھی کیے ہیں جو خود عربی شاعری میں شاذ ہیں۔ رزمی صاحب نے نہ صرف یہ کہ ان کو اُردو میں برتا ہے بلکہ سالم بھی لائے ہیں۔ بشیر رزمی کو شاید کچھ نسبت خفی ابوالعلا معری سے بھی ہے کیوں کہ انھوں نے بھی ’’لزوم مالایلزم‘‘ کے انداز میں خود پر بہت سی پابندیاں عاید کرنے کا اعلان کیا ہے۔
عروضی تجربات کا اتنا ضخیم مجموعہ مرتب کر دینا اپنی جگہ ایک کمال کی بات ہے لیکن ایسے تجربات میں زیادہ بڑا کمال یہ ہوتا ہے کہ اوزان و بحور کی اس مارا مار میں شاعری اور مضمون آفرینی بچ رہے اور زبان کی سلاست کا خون نہ ہو۔ ’’کائناتِ غزل‘‘ دیکھ کر بشیر رزمی کی عروضی مہارت کے ساتھ ساتھ ان کے تخیل کی زرخیزی اور زبان و بیان پر غیرمعمولی قدرت کا بھی قائل ہونا پڑتا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جناب بشیر رزمی نے ’’کائناتِ غزل‘‘ کا یہ یادگار تجربہ تقریباً آٹھ ماہ کے عرصے میں مکمل کر لیا جو اُن کی عروض دانی اور قادر الکلامی کے علاوہ اُن کی پر گوئی کا بھی آئینہ دار ہے۔