پیش نظر فورٹ ولیم کالج کے شعبہ تالیف و ترجمہ میں حفیظ الدین احمد کی تالیف کردہ کتاب ’’خرد افروز‘‘ ہے۔ جو سنسکرت کی مشہور ’’پنچ تنتر‘‘ جس کا عربی ترجمہ ’’کلیہ دمنہ‘‘ کے نام سے ہوا، کا جزوی خلاصہ ہے۔ جس میں جانوروں کی زبانی آدابِ معاشرت، تدبیرِ منزل اور دنیا میں اچھے سے زندگی گزارنے کی قوانین بتائے گئے ہیں۔ اس کتاب کا دنیا کی تمام اہم زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ جس کا مطالعہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ کتاب تقریباً سولہ ابواب پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ہے جو دو جلدوں میں مرتب کی گئی ہے۔ اس جلد کو مجلس ترقی ادب، لاہور نے مرتب کیا ہے۔ کتاب کے شروع میں سید عابد علی عابد کا نہایت وضاحتی اور معلوماتی مقدمہ ہے جس میں کہانیوں کے اصل ماخد، زمانہ، اختلاف نسخ اور مصنف وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔
خرد افروز (ترجمہ عیار دانش از ابوالفضل بن مبارک) کا حصۂ اوّل مجلس ترقی ادب کی جانب سے اگست 1963ء میں چھپ کر اربابِ علم کی خدمت میں پیش کیا جا چکا ہے۔ یہ حصہ پانچ ابواب پر مشتمل تھا۔ لیکن حصۂ دوم کا باوجود تلاش کے پتہ نہ چل سکا۔ اُردو ادب کی تاریخ میں بھی اس حصے کے بارے میں کوئی نشان دہی نظر نہ آئی۔ 1963ء کے آخر میں مجلس کے ایک کارکن (کلب علی خاں فائق) نے یہ نسخہ آزاد لائبریری علی گڑھ میں دیکھا۔ یہ نسخہ 1803ء کا پہلا ایڈیشن تھا۔ مولوی مشتاق حسین صاحب اسسٹنٹ لائبریرین شعبۂ اُردو آزاد لائبریری علی گڑھ سے تحریک کی گئی کہ وہ اس نسخے کو مجلس ترقی ادب کے لیے مرتب کر دیں۔ اُنھوں نے مجلس کی دعوت قبول کر لی اور نسخہ مرتب کر کے مجلس کو پیش کر دیا۔ آخر میں فرہنگ الفاظ بھی شامل کر دی۔ خرد افروز حصۂ اوّل میں سیّد عابد علی عابد کا تفصیلی مقدمہ اور ٹی۔ روبک کے دیباچے کا ترجمہ (از افتخار احمد صدیقی) شامل ہے جس سے اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
خرد افروز کے مترجم حفیظ الدین احمد کو اس ترجمے پر کالج کونسل (فورٹ ولیم کالج کلکتہ) نے چھ سے روپے کا انعام دیا تھا۔ اس سے ترجمے کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ یہ ترجمہ مدتوں درسی نصاب میں داخل رہا۔ لیکن اس کے بعد یہ کتاب آہستہ آہستہ نظرانداز ہو گئی اور اُردو کی تاریخوں میں اس کا ذکر نایاب کتاب کی حیثیت سے آنے لگا۔ حفیظ الدین کا طرزِ بیان نہایت صاف اور سلیس ہے۔ اس میں شوخی و رنگینی مطلق نہیں۔ فصاحت کے ساتھ ساتھ سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ ان کی نثر زمانۂ غدر اور اس کے بعد کے قریبی زمانے کی نثر سے بہت ملتی جلتی ہے۔ قواعدِ زبان اور روزمرہ کی پابندی کے ساتھ الفاظ کا استعمال بہت کچھ آزادی سے کہا گیا ہے۔ نہ ہندی الفاظ کی کثرت ہے اور نہ فارسی عربی الفاظ کی بھرمار! دونوں کا نہایت ہی عمدہ میل ہے۔ سرسیّد کے اسلوبِ بیان کی جھلک پائی جاتی ہے۔ حالانکہ خرد افروز قصوں کی کتاب ہے مگر نفسِ مضمون کی سنجیدگی کا لحاظ کرتے ہوئے حفیظ الدین نے انشاپردازی کی بلند پروازیوں اور تشبیہ و استعارہ کے ہیر پھیر سے ہٹ کر نہایت ہی صفائی اور سادگی سے لکھا ہے۔