’’خطباتِ گارساں دتاسی‘‘ پر حواشی اور تعلیقات نگاری کا کام بذاتِ خود ایک اہم اور محنت طلب موضوع ہے لیکن ہندوستان سے ہزاروں میل دُور بیٹھ کر اُردو کی درس و تدریس کرنے والے فرانسیسی فاضل گارساں دتاسی کی زندگی کے حالات اور اس کے کام کو ٹھوس اور جامع صورت میں پیش کرنا دشوار کام تھا۔ تاہم فاضل مصنف نے اپنے تحقیقی مقدمے میں یہ کام نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔ چنانچہ اس مقدمے میں ہندوستان کے دوسرے ممالک سے تعلقات اور ان ممالک کی تجارتی کمپنیوں کی ہندوستان میں آمد کا ذکر کرنے کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح 1857ء میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے تختِ دہلی پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد فرانس میں مشرقی زبانوں کی تعلیم کا ارتقائی جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح پیرس میں السنۂ شرقیہ کی تدریس کا سلسلہ جاری ہوا اور سلوتر دی ساسی نے گارسین دتاسی کو اپنی شاگردی میں لے کر اُردو سیکھنے کا مشورہ دیا۔ گارسین دتاسی نے پہلا خطبہ 1850ء میں دیا تھا جو بہت مختصر ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خطبے طویل اور جامع ہوتے گئے۔ 1869ء میں وہ انیس خطبے دے چکے تھے۔ 1870ء سے مقالات لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ چنانچہ 1850ء سے 1869ء تک دتاسی نے اُنیس خطبے دیے اور 1870ء سے 1877ء تک آٹھ مقالے لکھے۔ ان خطبات اور مقالات کا موضوع ہندوستانی ادب و ثقافت ہے۔ ہر خطبے گزرے ہوئے سال میں ہندوستان کی سیاسی، علمی، ادبی اور مذہبی زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ ہر خطبے میں فاضل مصنف گارساں دتاسی نے بتایا ہے کہ اُردو زبان کس طرح اور کس قدر اپنے حریفوں کی مخالفت کے باوجود ترقی کر رہی ہے۔ خطبات پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف نے ثابت کیا ہے کہ یہ خطبات اُردو ادب میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ ان کے بغیر اُردو ادب کی تاریخ نامکمل رہتی ہے۔
خطبات کی ترتیب کے بعد ان پر حواشی لکھنا اور تقریباً تین ہزار اشاروں کی توضیح کرنا، اور وہ بھی مجمل انداز میں، بلاشبہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف تھا۔ خطباتِ گارساں دتاسی میں قبل از مسیح سے لے کر انیسویں صدی کے وسط تک کی ہندوستانی زبانوں، اداروں اور شخصیات کا ذکر موجود ہے۔ چنانچہ اسماء و اعلام کے اس سارے سمندر کو مختصر تعلیقات کے کوزے میں بند کرنا معمولی کام نہیں تھا لیکن فاضل مصنف نے نہایت جانکاہی اور جانفشانی کے ساتھ اس پہاڑ کو کاٹا ہے۔ امید ہے اہلِ علم حضرات فاضل مصنف کی اس کاوش کو بہ نظر امتحان دیکھیں گے اور داد دیں گے۔