برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی تہذیبی، علمی اور ادبی نشاۃ ثانیہ تحریکِ علی گڑھ کی رہینِ منت ہے۔ اس تحریک کے رہنمائوں، سرسیّد اور ان کے رفقا نے مسلمانوں کے صدیوں پرانے جمود کو توڑا اور اُردو ادب کو نہ صرف حیاتِ تازہ بخشی کہ اس میں جدید افکار و نظریات کی آبیاری کی بلکہ اسے پست اور فرسودہ خیالات کی گرفت سے آزاد کرا کے زندگی کی حقیقی قدروں کا ترجمان بنا کر سادگی، سلاست اور روانی کو رواج بخشا۔ حالی کی تصانیف میں ایک کلاسیکی ضبط و نظم بہ الفاظِ دیگر رکھ رکھائو اور انتہائی سنجیدگی نمایاں ہے۔ حالی کے یہاں سرسیّد کے اسلوب کی بیشتر خصوصیات پائی جاتی ہیں، بلکہ بعض لحاظ سے ان کی نثر کو سرسیّد کی نثر کی ترقی یافتہ شکل کہا جا سکتا ہے۔ حالی کے متعلق یہ خیال عام ہے کہ ان کے خیالات سرسیّد کے خیالات کی آوازِ بازگشت ہیں اور اسی نسبت سے ان کا اسلوب بھی سرسیّد سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ بلاشبہ حالی کے اسلوب میں سرسیّد کی بعض باتیں ملتی ہیں جیسے سادگی، منطق، نیچرل کیفیت اور اظہارِ بیان میں بے تکلفی، لیکن ان کی نثر میں سرسیّد کے مقابلے میں جہاں تنوع کم ہے، وہاں سرسیّد کے مقابلے میں سادگی زیادہ ہے۔
زیرِ نظر مجموعہ ’’کلیاتِ نثر حالی‘‘ کا دوسرا حـصہ ہے جس میں مولانا حالی کی تقریریں، تقریظیں اور تبصرے شامل ہیں۔ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی، حالی کے متخصصین میں سے ہیں اور اس مجموعے کی ترتیب اُن کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہے۔