للو لال جی کوی (1763ء تا –1835ء) برطانوی ہندوستان میں ایک ماہر، مصنف اور مترجم تھے۔ وہ فورٹ ولیم کالج میں ’’ہندوستانی‘‘ زبان کے انسٹرکٹر تھے۔ وہ ’’پریم ساگر‘‘ کے لیے مشہور ہیں جو جدید ادبی ہندی میں پہلا کام ہے۔ للو لال کا تعلق برہمن خاندان سے تھا جو اس وقت علاقہ گجرات یا ہندوستان کے موجودہ صوبہ گجرات کا متوطن تھا اور آگرے میں مقیم تھا۔ للو جی کے والد کا نام چین سکھ تھا۔ للوجی کی پیدائش آگرہ میں ہوئی وہیں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ انہیں فارسی اور ہندوستانی زبان کا علم تھا۔ وہ روزی کمانے کے لیے مرشدآباد آئے اور سات سال تک مرشد آباد کے نواب کی خدمت کرتے رہے۔ انہیں جان گلکرسٹ نے دیکھا، جو انہیں کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج لے آئے۔ وہاں للو لال نے متعدد ادبی کاموں کا جدید مقامی ہندی زبان میں ترجمہ اور تالیف کا کام کیا۔ انہوں نے فورٹ ولیم کالج میں 24 سال تک خدمات سرانجام دیں، جس کے بعد 1823-24ء میں ریٹائر ہو گئے۔ للو لال کا سب سے مشہور ترجمہ ’’پریم ساگر‘‘ ہے جو ہندی کے لہجے کھڑی بولی کی ابتدائی نثر میں ہے۔ کاظم علی جوان کے ساتھ اُنھوں نے ’’سنگھاسن بتیسی‘‘ اور ’’شکنتلا‘‘ کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ مظہر علی ولا کے ساتھ انہوں نے ’’بیتال پچیسی‘‘ اور ’’مادھونل‘‘ کا ترجمہ بھی کیا۔ للو لال کے اصل کام میں اُردو میں برج بھاشہ کی گرائمر بھی شامل ہے۔ انہوں نے ’’لالہ چندریکا‘‘ بھی تصنیف کی، جو بہاری کی ستاسائی پر تبصرہ ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اُردو اور دیوناگری سکرپٹ میں ’’لطائفِ ہندی‘‘ مرتب کی۔ یہ لگ بھگ سو دلچسپ کہانیوں اور داستانوں کا مجموعہ ہے۔
یہ کتاب ’’للو لا جی کوی (ایک ادبی سوانح)‘‘ ابو سعادت جلیلی کی تصنیف کردہ للو لال کوی کی سوانح حیات ہے۔ یہ کتاب ایک وسیع تر منصوبے موسومہ ’’قدیم ہندی علم و دانش کا اُردو منظرنامہ: تحقیقاتِ سہیل بخاری کی روشنی میں‘‘ کی ذیل میں معرضِ تحریر میں آئی ہے اور ’’انوارِ سہیل بخاری‘‘ کا قلمی تسلسل ہے۔ قبل ازیں فورٹ ولیم کالج کے سربرآوردہ اسکالروں میں سے للو لال جی کوی کی شخصیت ایسی ہے جس کے غیرمعمولی کارہائے نمایاں کا احاطہ ابھی تک ویسا شایانِ شان نہیں کیا گیا تھا جس کی وہ بلاشک و شبہ مستحق ہے۔ یہ کام ابوسعادت جلیلی نے بھرپور انداز میں کیا ہے۔