مغربی زبانوں کے ماہر علما (علی گڑھ کالج کے قیام سے پہلے)
پیشِ نظر کتاب ’’مغربی زبانوں کے ماہر علما‘‘ کئی جہتوں سے قابلِ توجہ ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مغربی استعمار کی آمد سے پہلے یہاں مدارس و مراکزِ دانش کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی۔ صرف بنگال میں اَسّی ہزار مدارس قائم تھے۔ گویا ہر چار سو کی آبادی پر ایک مدرسہ فراہم تھا۔ انگریز آیا تو اس نے نہ صرف مسلمانوں کے نظامِ اوقاف کو برباد کر ڈالا جو ان کے نظامِ تعلیم پر ایک ضربِ کاری تھی بلکہ یہ ثابت کرنے کے لیے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ مسلمان تنگ نظر، متعصب اور ترقی کے دشمن ہیں اور انگریزی زبان کے مخالف۔ فاضل مصنف کا موقف ہے کہ مسلمانوں نے سرسیّد اور راجہ موہن رائے سے بھی پہلے انگریزی زبان و علوم کے حق میں آواز بلند کی اور اس ضمن میں میر محمد حسن اور مولوی کرامت علی منگلوری کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ مصنف نے بشپ ہیبر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے بقول مسلمانوں میں انگریزی زبان سیکھنے کا غیرمعمولی رجحان موجود ہے۔ مصنف نے اس بیہودہ پراپیگنڈے کی بھی تغلیط کی ہے کہ مسلمان علما نے انگریزی زبان و علوم کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا تھا۔
زیرِ نظر کتاب ان اصحابِ علم و فضل کے ذکر سے عبارت ہے جنھوں نے علی گڑھ کے مدرسۃ العلوم کے قیام سے بھی پہلے مشرقی علوم السنہ کے دوش بدوش مغربی زبانوں اور مغربی علوم و افکار میں دلچسپی لی۔ انھوں نے نہ صرف مغربی علوم کا مطالعہ کیا بلکہ ان کے تراجم بھی کیے۔ بعض نے خود مغربی دُنیا کی سیروسیاحت کی۔ دراصل اس سارے طرزِ عمل کے پس پشت یہ حقیقت کارفرما تھی کہ علوم و فنون اور زبان و لسان کے باب میں اسلام کا نقطۂ نظر آفاقی ہے۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی اور مولانا عبدالحئی فرنگی محلی نے انگریزی زبان سیکھنے کے حق میں فتاویٰ دیے۔ زیرِنظر کتاب کے مصنف پروفیسر محمد سلیم اسلامی علوم و السنہ کے ممتاز عالم تھے۔ وہ ایک طویل عرصہ تک تعلیم اور متعلقاتِ تعلیم پر اپنے رشحاتِ فکر سے سیراب کرتے رہے ہیں۔ ان کی مذکورہ کتاب مختصر ہونے کے باوجود جامع اور اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد اور فکرافروز ہے۔