ہر ملک اور قوم کی تہذیب اس کی زبان کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ سوچنے، سمجھنے اور اظہارِ خیالات کے لیے مادری زبان سے بہتر کوئی دوسری زبان نہیں ہو سکتی، بالخصوص تدریسی نقطۂ نگاہ سے مادری زبان میں لکھی ہوئی کتابیں ہی طالب علم کے لیے زیادہ سودمند ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس سے مضامین کو سمجھنے اور اظہارِ خیال میں آسانی ہو جاتی ہے اور لکھنے والا اپنے مقصد و مطلب کو بہتر طریقے سے قلم بند کر سکتا ہے۔ اگر ذریعۂ تعلیم مادری زبان ہو تو طلبا چیزوں کو سمجھ کر ان پر مزید تحقیق بھی کر سکتے ہیں، جو آج کل اعلیٰ تعلیم غیرزبان میں ہونے کی وجہ سے اعلیٰ پائے کی ریسرچ نہیں کر پاتے۔ اُردو زبان میں سائنسی کتابوں کی کم مائگی کی وجہ ہماری تن آسانی ہے، جسے دُور کرنے کی اس کتاب کے ذریعے شعوری کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں تمام مشہور اور عام بیماریوں کے متعلق بڑے مدلل انداز میں بحث کی گئی ہے۔ امراض کی ماہیت، اسباب اور علامات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اس میں تمام جدید نظریات بھی موجود ہیں۔ اس کتاب سے نہ صرف یہ کہ اُردو دان طبقہ مستفیض ہوگا بلکہ اس کے نظریات میں بھی وسعت پیدا ہوگی اور یہ کتاب میڈیکل سائنس کے دیگر متعلقہ مضامین کو اُردو زبان میں منتقل کرنے کے لیے ایک راہ نما کا کام دے گی۔
اطباء وقت کو جدید نظریات سے روشناس کرنا اور اپنی قومی زبان کی ترقی اس کتاب کے اولین مقاصد ہیں۔ اقوامِ عالم کے دوش بدوش چلنے کے لیے جدید علوم سے گریز ممکن نہیں۔ تدریس کا فطری ذریعہ ہونے کے باعث حصولِ علم اپنی ہی زبان میں بہتر نتائج کا حامل ہو سکتا ہے، غیرزبان میں تعلیم ایک قدرتی امر ہے۔ حکیم صاحب نے ماہیت الامراض جیسے مشکل مضمون کو آسان پیرائے میں بیان کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن چونکہ سائنسی مضامین میں اصطلاحات سے گریز بھی ممکن نہیں، اس لیے نامانوسیت ایک قدرتی امر ہے۔ اس لیے ممکن ہے ادبی لطافتوں کے متلاشی حضرات کو کچھ مایوسی ہو، لیکن کتاب کے باقاعدہ مطالعہ کی صورت میں طالب علموں اور اہلِ فن حضرات کو کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ کتاب کے آخر میں اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔ اُمید ہے یہ کتاب اہلِ علم اور اہلِ فن اصحاب کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی۔ یہ اس کتاب کی پہلی جلد ہے۔