تاریخ اُردو زبان و ادب کے گلستان میں کچھ شگفتہ اور سدا بہار شخصیات ایسی ہیں جن پر کبھی خزاں کا گزر نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ تروتازہ رہتی ہیں اور اپنی خوشبوئے تازہ سے فضائے اُردو کو ہمیشہ معطر بنائے رکھتی ہیں۔ ایسی ہی نادر الوجود اور عظیم شخصیات میں سے ایک دُرِّنایاب حافظ محمود خاں شیرانی کی شخصیت ہے جنھیں اُردو مدرسۃ التحقیق کا معلم اوّل تسلیم کیا جاتا ہے۔ شیرانی کی ادبی تحقیق و تدوین کا رتبہ دنیائے ادب میں نہایت بلند ہے۔ انہوں نے بہت سے غلط نظریات اور مسخ شدہ تاریخی حقائق کی درستگی کا فریضہ کمال ذمہ داری سے انجام دیا ہے۔ شیرانی صاحب نے تحقیقات کی ایک ایسی روایت قائم کی جس کی بنیاد نئے ماخذ کی دریافت پر ہے۔ چنانچہ انہوں نے سینکڑوں نئے ماخذ کی روشنی میں نئے نتائج نکالے ہیں۔ انہوں نے کئی کتابوں کے علاوہ پچاسوں تحقیقی مقالات لکھے ہیں۔
زیر نظر کتاب پروفیسر حافظ محمود شیرانی مرحوم کے مکاتیب کا مجموعہ ہے۔ شیرانی صاحب کے ان مکتوبات کا زمانہ کم و بیش اکتالیس برس پر محیط ہے۔ ان خطوط کی جمع آوری میں جو سعی کی گئی ہے اس کی مدت بھی چونتیس سال سے کم نہ ہوگی، یعنی شیرانی صاحب کی وفات سے لے کر تادمِ تحریر اور ابھی مرحوم کے مزید خطوط کے حصول کا امکان باقی ہے۔ ان کوششوں کا آغاز حافظ محمود شیرانی کے بیٹے اختر شیرانی نے کیا تھا، جو ان کی وفات کے بعد حکیم نیر واسطی کے ذریعے ان کے پوتے مظہر محمود شیرانی کے حوالے کر دیئے گئے۔ بعد ازاں مظہر محمود شیرانی نے ہر ممکنہ کوشش سے حافظ محمود شیرانی کے خطوط کو جمع کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہا جا سکتا کہ ہے یہ مجموعہ شائع ہونے کے بعد شیرانی صاحب کے مزید خطوط حاصل ہوں گے۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن پینتیس سال بعد شائع کیا گیا، لیکن اس دوران صرف گیارہ خط مزید دستیاب ہوسکے۔