’’مخزن‘‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے شیخ عبدالقادر ادبی دُنیا کے لیے اجنبی نہیں۔ شیخ عبدالقادر اُردو ادب، بالخصوص بیسویں صدی کے اُردو ادب کے بہت بڑے محسن اور ادیبوں اور شاعروں کے مربی تھے۔ اُردو ادب پر ان کے بہت زیادہ احسانات ہیں جنھیں بھلانا صرف احسان فراموشی ہی نہیں بلکہ اُردو ادب کے ساتھ ناانصافی بھی ہے۔ شیخ عبدالقادر نے اُردو ادب کے فروغ اور ارتقا و ترقی کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ ادب کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے۔ وہ بلاشبہ ’’جامع کمالات بزرگ‘‘ تھے جو ’’مذہب اُردو کے پیغمبر و داعی‘‘ اور ’’اُردو کے جناح‘‘ تھے۔ شیخ عبدالقادر نے اُردو نثر کو ایک ایسے اسلوب سے روشناس کرایا جو اپنی سادگی اور دل کشی دونوں میں بے مثال تھا۔ وہ جس زبان میں باتیں کرتے تھے، اسی زبان میں لکھتے بھی تھے اور اپنی تحریر میں اُنھیں کوئی تکلف، رکھ رکھاؤ یا تصنع برتنا نہیں پڑتا تھا۔ اُن کا موضوع ادبی ہو یا سیاسی، خارجی ہو یا داخلی، تاریخی ہو یا ثقافتی وہ یکساں مہارت اور ہموار انداز سے اسے بیان کرتے چلے جاتے تھے اور ان کے ناظرین کو ان کے سمجھنے میں کبھی کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ یہ اسلوب سادگی، سلاست اور ہمواری کے علاوہ ایک خاص قسم کی لطافت اور دلآویزی بھی رکھتا تھا۔
شیخ عبدالقادر کے اُردو زبان و ادب پر مضامین و مقالات کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے جن میں سے 130 مضامین ان کے اپنے رسالے ’’مخزن میں شائع ہوئے۔ شیخ عبدالقادر کے ان مضامین، مقالات اور مقدمات کے مطالعے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ان کا قلم ہمیشہ ارتقائی اقدار کا محافظ اور وقت کے تقاضوں کا نقیب رہا ہے۔ اُنھوں نے اُردو ادب میں بہت سی ایسی نئی معلومات اور نئے افکار کا اضافہ کیا جو اُس وقت معدوم و عنقا تھے۔ اس لحاظ سے اُنھوں نے ادب کا جو سرمایہ چھوڑا ہے اس کی قدر و قیمت ہمیشہ وہی رہے گی جو اعلیٰ درجے کے ادب کی ہوا کرتی ہے۔ مقالات کے اس مجموعے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں خود نوشت مضامین، دوسرے میں شخصیت و سوانح سے متعلق جبکہ تیسرے حصے میں تنقید شامل ہے۔