مشرقی السنہ کے نامور محقق عبدالستار صدیقی گوشہ نشین اہلِ علم تھے جو تمام عمر نام و نمود اور شہرت پسندی سے دُور رہے۔ ڈا کٹر صاحب اپنے وقت کے نامور محقق اور ماہر لسانیات تھے۔ انہوں نے متحدہ ہندوستان اور پھر تقسیم ہند کے بعد بھی اردو زبان وادب کے حوالے سے گراں قدر خدمات انجا م دیں۔ انہیں متعدد زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ان کا وطن مولوف ہندوستان تھا چنانچہ وہیں رہ کر انہوںنے تحقیق اور لسانیات کے لیے کام کیا۔ پاکستان میں اردو ادب کے قارئین کے لیے شائد یہ نام زیادہ مانوس نہ ہو لیکن زبان و ادب میں تحقیقات اور ریسرچ کے ذیل میں کام کرنے والے طلبائے ادب اور محققین کے لیے ان کا نام بڑے معتبر حوالے کے طورپر لیا جاتا ہے۔ زیرِ نظر کتاب عبدالستار صدیقی کے مقالات پر مشتمل ہے۔ کتاب میں شامل مضامین کا تنوع اور الفاظ کی تاریخ اور ان کی اصلیت کے بارے میں مواد ایسا جاندار اور دلچسپی کا حامل ہے کہ عام قاری بھی انہیں پڑھ کر خوشی اور دلی اطمینان محسوس کرتا ہے۔ یہ مقالات جہاں فکرو نظر کے لیے نئے دریچے وا کرتے ہیں وہیں مزید تفتیش، تحقیق او ر تفحص پر بھی مائل کرتے ہیں۔ اردو زبان کے بارے میں ریسرچ کرنے والوں کے ساتھ ساتھ عام قاری کو بھی اس سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے ۔
اس سے قبل اُن کے صاحب زادے مسلم صدیقی نے جلد اوّل ترتیب دی تھی مگر وہ بھی 1996ء میں انتقال کر گئے تو دوسری جلد نہ آ سکی، جسے بعد ازاں ساجد صدیق نظامی نے مرتب کیا ہے۔ اس جلد میں صدیقی صاحب کے مقالات کا قابلِ قدر حصہ غالبیات پر مشتمل ہے۔ کچھ مضامین متفرق موضوعات پر لکھے گئے ہیں۔ شخصیات کی ذیل میں ڈاکٹر اشپرنگر اور حافظ محمود شیرانی پر مضامین لکھے گئے ہیں۔ آخر میں ایک طویل انگریزی/ عربی مضمون بھی اس مجموعے میں شامل ہے۔ صدیقی صاحب کے 12 مقالات اور ایک خط پر مبنی یہ مجموعہ حرفِ آخر نہیں ہے، بلکہ ابھی بھی بہت سے مضامین ایسے ہیں جنہیں جمع کر کے ایک اور مجموعہ تیار کیا جا سکتا ہے۔