’’آبِ حیات‘‘ کا ذکر آتے ہی ذہن میں مولانا محمد حسین آزاد کا نام گردش کرنے لگتا ہے۔ یہ ان کی وہ شاہکار کتاب ہے جو کہنے کو تو تذکرہ ہے مگر اس کا نثری سحر ایسی کیفیت پیدا کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے وہ شخصیت سامنے روبرو کھڑی ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں۔ وہ شاعر بھی تھے اور ادیب بھی تھے اور صحافی بھی۔ زیر نظر کتاب مقالات آزاد ہے جسے آغا محمد باقر نے مرتب کیا ہے۔ اس کتاب میں محمد حسین آزاد کے ان مقالات کو مرتب کیا گیا ہے جو خصوصی طور سے رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے تھے اور بقول مرتب کچھ قلمی نسخوں سے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اس مجموعے میں 1865ء سے 1885ء تک کے مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ جنہیں زمانی ترتیب سے نہیں مرتب کیا گیا تاکہ ہر جلد الگ حیثیت میں پڑھی جا سکے۔ مرتب نے پیش لفظ میں بتایا ہے کہ یہ مضامین مولانا آزاد نے اپنے شوق سے قصصِ ہند کی تصنیف سے پہلے لکھے تھے۔ ان کے بیشتر مضامین رسالۂ انجمن پنجاب سے ماخوذ ہیں۔
مولانا محمد حسین آزاد مرحوم کا مرصّع اور متنوع اندازِ تحریر ہر ہر دَور میں مقبول رہا ہے اور ان کی نثر اُردو ادب میں غیرفانی مقام حاصل کر چکی ہے۔ آزاد نے لاہور کی فضا میں جو علمی و ادبی خدمات سرانجام دیں وہ برصغیر پاک و ہند میں ہمہ گیر تحریک کی حیثیت اختیار کر گئیں اور عوام و خواص دونوں ان سے متاثر ہوئے۔ آزاد کی اُردو ادب کی خدمات سے نہ صرف نثرنگاری میں انقلاب پیدا ہوا بلکہ شاعری بھی قدیم فرسودہ راہوں سے ہٹ کر زندگی کی حقیقی راہوں سے روشناس ہوئی۔ مولانا کی نثری تخلیقات بار بار چھپتی رہیں، البتہ جو مقالات اور نثرپارے رسالہ انجمن پنجاب میں شائع ہوئے وہ امتدادِ زمانہ کے باعث نظروں سے روپوش ہو گئے، جنہیں آغا محمد باقر نے مرتب کیا ہے۔ آغا صاحب نے اپنے فاضل جدِ مرحوم سے عقیدت کا ثبوت اس طرح دیا کہ ان متفرق، بکھرے ہوئے مضامین اور مقالات کو برسوں کی کوشش کے بعد محنت سے مرتب کر کے بطور علمی ارمغان کے اربابِ علم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ان میں سے اکثر مقالات کی جمع و ترتیب کا کام آغا صاحب نے خود کیا ہے۔ یہ ان مقالات کی جلد دوم ہے جس کی اشاعت سے پہلے ہی آغا باقر کی وفات ہو گئی، بعد ازاں تصحیح و نظرثانی کا کام مولانا مرتضیٰ حسین اور آغا باقر کے بیٹے آغا سلمان باقر نے انجام دیا۔